عدالتی خلع کے بعد نکاح کا شرعی حکم

 سوال

اگرکسی عورت کا نکاح ایک مرد سے ہو، اور بعد میں آپس کے جھگڑوں کی بنا پر عورت عدالتمیں خلع کا مقدمہ دائر کرے، لیکن شوہر عدالت کے فیصلے کو نہ زبانی طور پر تسلیمکرے اور نہ تحریری طور پر قبول کرے، تو کیا ایسی صورت میں عدالتی خلع شرعاً نافذہوگی؟ کیا عورت دوسری شادی کرسکتی ہے؟

الجواب۔۔۔!!

واضح رہے کہ خلع بھی دیگر عام مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دوسرے مالی معاملات میں فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع میں بھی دونوں فریقوں (شوہر اور بیوی) کی رضامندی ضروری ہے۔

کسی ایک فریق کی رضامندی کے بغیر خلع شرعًا معتبر نہیں۔ اور عمومی حالات میں شوہر کی اجازت اور وکالت کے بغیر کسی اور کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب لڑکی کا نکاح اس لڑکے سے ہوچکا، اور بعد میں جھگڑے کی بنا پر لڑکی والوں نے عدالت میں خلع کا دعویٰ دائر کیا، اور لڑکے نے عدالت کے فیصلے کو نہ تحریری طور پر قبول کیا اور نہ زبانی طور پر، تو ایسی صورت میں

 

عدالت کی طرف سے دی گئی خلع شرعًا معتبر نہیں ہے۔

اس لیے

دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے،

اور لڑکی کسی اور مرد سے نکاح نہیں کرسکتی۔

 

واللہ اعلم باالصواب

محمد شریف فاروقی عفی عنہ

پاکستان ۔قطر تکافل کے نام سے ایک ادارہ ہے جو لوگوں کے پیسوں پر کاروبار کرتے ہیں اور ہر ماہ غیر معین مقدار میں اپنے کسٹمرز کو منافع بھی دیتے ہیں۔ہاں پہلی دفعہ اکاؤنٹ کھولنے پر کچھ رقم کسٹمرز کے پیسوں سے کاٹ بھی دیتے ہیں ۔۔۔براہ کرم اسکے بارے میں رہنمائی فرمائیں

 

پاکستان ۔قطر تکافل کے نام سے ایک ادارہ ہے جو لوگوں کے پیسوں پر کاروبار کرتے ہیں اور ہر ماہ غیر معین مقدار میں اپنے کسٹمرز کو منافع بھی دیتے ہیں۔ہاں پہلی دفعہ اکاؤنٹ کھولنے پر کچھ رقم کسٹمرز کے پیسوں سے کاٹ بھی دیتے ہیں ۔۔۔براہ کرم اسکے بارے میں رہنمائی فرمائیں

جواب:

واضح رہے کہ اسلامک بینکنگ کیلئے مستند علماء کرام نے شریعت کے اصولوں کے مطابق ایک نظام تجویز کیا ہے، اور قانونی طور پر بھی اسلامی بینکوں پر اس نظام کی پابندی لازم ہے، اسی طرح مروجہ انشورنس کے متبادل طور پر تکافل کا نظام تجویز کیا گیا ہے٬ جو ادارہ مستند علماء کرام کی نگرانی میں اس نظام کے تحت کام کررہا ہو٬ ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی گنجائش ہے٬ اور ہماری معلومات کے مطابق پاک قطر تکافل مستند علماء کرام کی نگرانی میں شرعی اصولوں کے مطابق چل رہا ہے٬ اس لئے ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی گنجائش ہے٬ تاہم وقتاً فوقتاً معلومات کرتے رہنا چاہئے، تاکہ بعد میں اگر خدانخواستہ کمپنی کی طرف سے علماء و مفتیان کرام کے بتائے ہوئے طریقہ سے انحراف سامنے آئے٬ تو اس وقت کی صورتحال کا حکم معلوم ہوسکے۔

 

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

 

مسلہ یہ ہے کہ قانون کے طالبعلم عدالت جا کر پریکٹس کرتے ہے۔ اور کسی سینئر وکیل کے ماتحت کام کرتے ہے۔ وه وکیل ہر قسم کے جائز نا جائز کیسز لیتے ہے۔ تو ایسے میں کیا طالبعلم کے لیے پریکٹس کرنا جائز ہے؟ اور عموما یہ پریکٹس بس سیکھنے کے لیے کچھ مہینو ں کے لیے ہی ہوتی ہے۔

 

مسلہ یہ ہے کہ قانون کے طالبعلم عدالت جا کر پریکٹس کرتے ہے۔ اور کسی سینئر وکیل کے ماتحت کام کرتے ہے۔ وه وکیل ہر قسم کے جائز  نا جائز کیسز لیتے ہے۔  تو ایسے میں کیا طالبعلم کے لیے پریکٹس کرنا جائز ہے؟ اور عموما یہ پریکٹس بس سیکھنے کے لیے کچھ مہینو ں کے لیے ہی ہوتی ہے۔

الجواب

صورتِ مسئولہ میں وکالت  کا پیشہ اختیار کرنے والا کوئی شخص اگر  ناحق کسی شخص کی وکالت نہ کرے، کسی نا حق بات کو ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، نیز جھوٹ، دھوکا اور رشوت کا سہارا نہ لے تو   وکالت کے پیشہ اختیار کرنے  میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی شخص اس پیشے سے محض پیسے کمانے کے بجائے  احقاقِ حق اور مظلوموں کی مدد کرنے کی نیت کرے تو باعثِ ثواب ہوگا ۔اوراسکے ساتھ نوکری کرنا بھی ٹھیک ہے اگر وہ ناجائز طریقے سے کیسسز حل کرتا ہے تو پھر ٹھیک نہیں ہے

 

"والصواب أن مراد صاحب العناية هو أنه قد يكون في نفس الوكالة التعاوض كما إذا أخذ الوكيل الأجرة لإقامة الوكالة فإنه غير ممنوع شرعا، إذ الوكالة عقد جائز لا يجب على الوكيل إقامتها فيجوز ‌أخذ ‌الأجرة فيها."

 

(كتاب الوكالة، ج:8، ص:3، ط:دار الفكر)

 

فتاوی شامی میں ہے:

 

"(وكره) تحريما (التقلد) أي أخذ القضاء (لمن خاف الحيف) أي الظلم (أو العجز) يكفي أحدهما في الكراهة ابن كمال (وإن تعين له أو أمنه لا) يكره فتح ثم إن انحصر فرض عينا وإلا كفاية بحر

."

فقط  واللہ اعلم

سوال 9 اور۱۰ محرم کے بارے میں تفصیل سے بتاٸں اس دن روزہ رکھنا کیسا ہیں اکثر لوگ کہتے ہیں کے ان۔دو دونو ںکو روزہ رکھنے سے پچھلے دو سال کے۔گنا معاف کردۓ جاتے ہیں

 

     سوال 9 اور۱۰ محرم کے بارے میں تفصیل سے بتاٸں اس دن روزہ رکھنا کیسا ہیں اکثر لوگ کہتے ہیں کے ان۔دو دونو ںکو روزہ رکھنے سے پچھلے دو سال کے۔گنا معاف کردۓ جاتے ہیں

الجواب

محترم واضح رہے کہ عاشورہ کا روزہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے ثابت ہے، اس کی فضیلت بھی احادیثِ مبارکہ میں وارد ہے، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں،البتہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ یہود بھی عاشورہ کے روزے کا اہتمام کرتے ہیں تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سال عاشورہ  کے روزہ کے ساتھ نو محرم کو  بھی روزہ  رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا جس کی بنا پر فقہاءِ کرام نے عاشورہ کے ساتھ نو محرم کے روزہ کو مستحب قرار دیا ہے اور  مشابہتِ یہود کی بنا پر صرف عاشورہ کا روزہ رکھنے کو مکروہِ  تنزیہی قرار دیا ہے، لہٰذا دس محرم کے روزے کے ساتھ نو یا گیارہ محرم کا روزہ بھی رکھنا چاہیے۔

 

محرم الحرام کا پورا مہینہ ہی قابلِ احترام  اور عظمت والا مہینہ ہے،  یومِ عاشورہ کے علاوہ  اس پورے مہینے میں بھی روزے رکھنے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آپ ﷺ نے ماہِ محرم میں روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

 

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :افضل ترین روزے رمضان کے  بعد ماہ محرم کے ہیں، اور فرض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے۔

 

 ’’[عن أبي هريرة:] سُئلَ: أيُّ الصلاةِ أفضلُ بعد المكتوبةِ؟ وأيُّ الصيامِ أفضلُ بعد شهرِ رمضانَ؟ فقال " أفضلُ الصلاةِ، بعد الصلاةِ المكتوبةِ، الصلاةُ في جوفِ الليل ِ. وأفضلُ الصيامِ، بعد شهرِ رمضانَ، صيامُ شهرِ اللهِ المُحرَّمِ ". مسلم (٢٦١ هـ)، صحيح مسلم ١١٦٣ • صحيح •‘‘.

 

اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو  شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھے گا  تو اس کے دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور جو  شخص محرم کے مہینہ میں ایک روزہ رکھے گا، اس کو ہر روزہ کے بدلہ میں تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔

 

 ’’[عن عبدالله بن عباس:] من صام يومَ عرفةَ كان له كفَّارةَ سَنتيْن، ومن صام يومًا من المُحرَّمِ فله بكلِّ يومٍثلاثون يومًا‘‘.

 

(المنذري (٦٥٦ هـ)، الترغيب والترهيب ٢/١٢٩ • إسناده لا بأس به • أخرجه الطبراني (١١/٧٢) (١١٠٨١)، وفي «المعجم الصغير» (٩٦٣)

 فقط واللہ اعلم

محرم الحرام کا پہلے عشرہ میں کیا عورت ہمبستری کر سکتے ہیں یا نہیں

 

محرم الحرام کا پہلے عشرہ میں کیا عورت ہمبستری کر سکتے ہیں یا نہیں

الجواب

محترم واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں میاں ،بیوی کے درمیان جسمانی تعلقات قائم کرنے کے لیے نہ ہی کسی وقت اور دن کو خاص کیاگیاہے ،اورنہ ہی کسی خاص وقت اور دن کی نفی کی گئی ہے،البتہ حیض ونفاس کی حالت میں میاں،بیوی کے درمیان جسمانی تعلقات قائم کرنے کو حرام قراردیاگیاہے ۔

 

صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی حالتِ حیض یانفاس میں نہ ہو ،تو مذکورہ دنوں میں میاں،بیوی کے درمیان جسمانی تعلقات قائم کرناشرعاً جائز ہے ۔

 

احکام القرآن للجصاص میں ہے

 

"والله تعالى إنما منع من وطء الحائض أو ممن يجوز أن تكون حائضا فأما مع ارتفاع حكم الحيض وزواله فهو غير ممنوع من وطء زوجته; لأنه تعالى قال: فاعتزلوا ‌النساء في المحيض ولا تقربوهن حتى يطهرن."

 

(باب بيان معنى الحيض ومقداره ، ج : 1 ص : 424 ط : دارالكتب العلمية)

 

فقط واللہ أعلم

صورت مسئلہ یہ ہے کہ جو عورتیں بالغ وہ کسی مدرسے میں قرآن پاک حفظ کررہی ہیں وہ عورتیں ایام حیض میں سبق اور سبقی اور منزل سناتی ہیں شریعت کیاکہتی ہیں ان بارے میں

 

صورت مسئلہ یہ ہے کہ جو عورتیں بالغ وہ کسی مدرسے میں قرآن پاک حفظ کررہی ہیں وہ عورتیں ایام حیض میں سبق اور سبقی اور منزل سناتی ہیں شریعت کیاکہتی ہیں  ان بارے میں

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم واضح رہے کہ خواتین کے لیے ماہوری کے دنوں میں قرآن کریم نہ دیکھ کر پڑھنا جائز ہے اور نہ ہی زبانی پڑھنے یا سنانے کی اجازت ہے، جیساکہ "سننِ ترمذی" میں بروایتِ عبد اللہ ابن عمر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ حائضہ (وہ خاتون جو حیض کے ایام میں ہو) اور جنبی ( وہ مرد جس پر غسل فرض ہو) قرآن مجید میں سے کچھ بھی نہیں پڑھ سکتے۔

 

البتہ حائضہ عورت قرآنِ پاک کو براہِ راست چھوئے بغیر اگر صرف دیکھ کر دل دل میں الفاظِ قرآن کا تصور کرے، زبان سے بالکل بھی تلفظ نہ کرے تو اس کی اجازت ہے، بوقتِ ضرورت (مثلاً: حافظہ لڑکی) اس پر عمل کیا جاسکتاہے۔

 

عن إبن عمر رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: لا تقرأ الحائض و لا الجنب شيئاً من القرآن.

 

(باب ما جاء في الجنب و الحائض أنهما لا يقرآن القرآن، رقم الحديث: ١٣١، ط: دار السلام)

 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)میں ہے:

 

(و) يحرم به (تلاوة القرآن)

 

(قوله: تلاوة القرآن) أي ولو بعد المضمضة كما يأتي. ( ١ / ١٧٢)

 

 فقط واللہ اعلم

قرآن کا کفارہ کتنا ہے ؟

 

قرآن کا کفارہ کتنا ہے ؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم واضح رہے کہ قرآن کی قسم کھانے سے منع کیاگیاہے، لیکن  اگر کسی نے (قسم کے الفاظ کہتے ہوئے) قرآن پاک کی قسم  کھالی تو منعقد ہوجاتی ہے، اگر کسی جائز یا بہتر کام کی قسم کھائی ہے تو اسے پورا کرنا چاہیے، البتہ اگر قسم ٹوٹ جائے یا نامناسب کام پر قسم کھائی تھی اور اسے توڑدیا تو اس کے توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے, چاہے تو ہر مسکین کو ایک صدقہ فطر کی مقدار (پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت) بھی دے سکتا ہے، یا  دس مسکینوں کو لباس پہنائے، اور ان دونوں صورتوں کی گنجائش نہ ہو تو تین دن مسلسل روزے رکھے۔

 

 فقط واللہ اعلم

بباطن الكف ، (ہاتھ کی سیدھی جانب) سے مسنون ہے کچھ دنوں سے یہاں مسح گردن کے متعلق مسئلہ اٹھا ہوا ہے کہ گردن کا مسح ،، یابظهور الکف ،، (یعنی ہاتھ کی الٹی جانب ) سے ایک فریق شق اول کو لئے ہوئے ہے دوسرا فریق شق ثانی کو۔

گردن کا مسح الٹے ہاتھ سے ہے

سوال :۔

بباطن الكف ،  (ہاتھ کی سیدھی جانب) سے مسنون ہے    کچھ دنوں سے یہاں مسح گردن کے متعلق مسئلہ اٹھا ہوا ہے کہ گردن کا مسح ،، 

یابظهور الکف ،،  (یعنی ہاتھ کی الٹی جانب ) سے ایک فریق شق اول کو لئے ہوئے ہے   دوسرا فریق شق ثانی کو۔

 

دلائل فریق اول : ( مسح رقبہ بظهور الکفین امر تعبدی ہے یا قیاس اگر امر تعبدی ہے تو اس کے لئے کوئی حدیث چاہیئے جسمیں ، صبح ظہور الکفین ، کی صراحت ہو یا کم از کم کسی صحابی کا قول ہی ہو مگر ایسی کوئی روایت موجود نہیں نہ ہی احناف کے ائمہ ثلاثہ سے اس کی تصریح منقول ہے چنانچہ علامہ عبدالحٰئ لکھنوی السعایہ / ۷۸ پر لکھتے ہیں

 

اما ما ذكره اصحابنا منهم صاحب النهاية وغيره في كيفيته انه بمسح الرقبة بعد مسح الرأس والاذنين بظهور الاصابع الثلث فلم اجد له اصلا و لذا تركته بعد ما كنت اعمله واخذت بماثبت في الاحاديث

 جب روایت کوئی نہیں تو قیاس کی طرف رجوع ہو گا لہذا دیگر ممسوحات مثلاً سر موزے، تیم وغیرہ بباطن کف ہیں ۔ اسی طرح مسح رقبہ بھی ،، بباطن الکف ، ، ہو گا ور نہ تو اس قیاس سے عدول کی طرف دلیل چاہئے کہ اس کے استثناء کی کیا وجہ ہے؟

(۲)

مفتی رشید احمد لدھیانوی اپنے رسالہ طریقہ سی و تیم میں لکھتے ہیں کہ اس تحریر میں بظهور الا صابع کے عدم ثبوت کا قول بلاشبہ صحیح ہے علاوہ ازیں الاذنان مع الرأس سے بھی ثابت ہوا کہ "مسحرقبة مؤخر بماء جديد ببطون الاصابع ہے۔

(۳)

ایک غیر ثابت شدہ طریقہ ( جو خلاف قیاس ہے ) کہ عوام تو کجا خواص بھی سنت سمجھ رہے ہیں اور اس پر مصر ہیں اس کے خلاف کرنے والے کو غلط سمجھتے ہیں اس طرح کا التزام اور شدت تو کسی ثابت شدہ مستحب پر بھی کیا جائے تو اس میں بھی کراہت آجاتی ہے جیسا کہ فتاوی محمودیہ میں ہے ۔ الاصرار عليه المندوب يبلغه إلى حد الكراهة ( ٤٣/١١) اور مسح بظهور الاصابع “ کے تو ثبوت پر کوئی دلیل بھی نہیں تو کیا اس کا ترک لازم نہ ہوگا۔

(۴)

در مختار میں ہے اذا تردد الحكم بين السنة والبدعة كان الترك السنة اولى شمالى ۴۷۵/۱) جب ثابت شدہ سنت کے متعلق یہ حکم ہے تو غیر ثابت شدہ طریقہ کا ترک لازم کیوں نہیں؟

(۵)

غالبا جمائی یا دعا استسقاء کے وقت ہاتھ کی پشت استعمال کرنے کے علاوہ کوئی بھی شرعی حکم ، ظہر الکف ،، کے ساتھ متعلق نہیں۔

 

فریق ثانی کے دلائل

 (1) فتاوی عالمگیری ، فتح القدیر جلبی کبیر، انهر الفائق ، فتاوی شامی بہشتی زیور و غیر ہا میں، مسح بظهر الاصابع ، لکھا ہے۔

صاحب عنایہ نے مروجہ طریقہ کو بروایت حضرت عائشہ ثابت کیا ہے۔ (۲)

سب اکابرین ، بزرگوں، علماء اور عوام کا تعامل چلا آ رہا ہے اور تعامل بھی اجماع کی ایک(۳)

صورت ہے اس کے خلاف کرنے سے بڑا فتنہ ہوگا۔

 

جب سب اکابرین لکھ گئے ہیں اور فقہ کی معتبر کتابوں میں مسح بظہور الاصالح مذکور ہے  توظا ہر ہے کہ ان کے پاس کوئی دلیل ضرور ہو گی ان پر اعتماد نہ کرنا اور اس سے دلیل طلب کرنا غیر مقلدیت ہے۔

جوابات از جانب فریق اول (۱) خلاف قیاس مسئلہ کا کتب فقہ میں لکھا جانا بغیر کسی حدیث وغیرہ کی دلیل کے اس کی سنیت کے لئے کافی نہیں اور مسیح بظهور الاصابع ، بھی خلاف قیاس ہے، قیاس کا تقاضا اس کے برعکس ہے اور کب مذکورہ کا دفاع کرتے ہوئے عرض ہے کہ یہ کچھ بعید ہیں کہ ابتداء کسی بزرگ نے کسی ایک بزرگ پر اعتماد کر کے اس طریقہ کو لکھ دیا ہو پھر ان پر اعتماد کرتے ہوئے بعد والے بھی نقل در نقل کرتے آئے ہوں اور ماخذ کی طرف التفات نہ ہوا ہو اور اس کی امثلہ کتب فقہ میں موجود ہیں چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:

 قلت وقد يتفق نقل قول في نحو عشرين كتابا من كتب المتأخرين ويكون القول خطأ اخطأ به اول واضع له فياتي من بعده وينقله عنه وهكذا ينقل بعضهم عن بعض كما وقع ذلك في بعض مسائل ما يصح تعليقه وما لا يصح كمانبه على ذلك العلامة ابن نجيم في بحر الرائق

(شرح عقود رسم المفتى )

 

 

بعض کتابوں میں جو عقلی دلیل دی گئی ہے کہ مسح رقبہ ہاتھ کی پشت سے اس وجہ سے ہے کہ وہ جانب مسح الرأس" میں استعمال نہیں ہوئی لہذا اظهور الاصابع“ کی تری سے گردن کا مسح کیا جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دلیل سے زیادہ سے زیادہ جواز ہی ثابت ہو سکتا ہے اور جواز میں کوئی کلام و اختلاف نہیں اختلاف تو مذکورہ طریقہ کی سنیت اور عدم سمیت میں ہے جسکے ثبوت کے لئے یہ دلیل کافی نہیں تو ظاہر ہے کہ مسح رقبہ بھی مثل دیگر ممسوحات کے ماء جدید کے ساتھ بباطن الاصابع “ قرین قیاس ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ہاتھ ترکر کے سیدھی جانب سے سر کا مسح کرے اور الٹی جانب سے موزوں پر مسح کر لیا جائے یا ہا تھ دونوں جانب سے مٹی وغیرہ پر مار کر سیدھی جانب منہ پر اور الٹی جانب بازؤں پر استعمال کرے یا ایک ہاتھ تر کر کے سیدھی جانب سے ایک جبیرہ پر اور الٹی جانب سے دوسری جبیرہ پر مسح کرلے تو ایسے شخص کے متعلق آپ کیا کہیں گے اس نے سنت طریقہ کو پالیا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ تیم مسیح خفین میں تصریح ہے مسح بباطن الكف کی کما قال

التيمم ضربتان الخ تو ہم کہتے ہیں کہ پاکر یہ غیر مصرح کو مصرح کی طرح ادا کرنے میں کیار کاوٹ ہے؟

(۲)

حدیث عائشہ کسی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں نہ ہی صاحب عنایہ نے اس کی کوئی سند ذکر کی ہے لہذا اس کو تو حدیث کہنا بھی صحیح نہ ہوگا اگر کہیں یہ روایت ثابت ہے تو اس کا حوالہ چاہیئے ۔

(۳)

کیا عبادات میں بھی تعامل کی گنجائش ہے جس کو اجماع کا درجہ دیا جارہا ہے، اگر گنجائش ہے تو پھر بدعت نام کی کوئی چیز نہ رہے گی کیونکہ اس میں بھی کسی قدر تعامل پایا جاتا ہے اور سح رأس وسیع تیم طریقہ مروجہ مخترعہ کو بھی تعامل خواص وعوام حاصل ہے تو کیا اس کو بھی اجماع کا درجہ دیا جائے گا ؟ باقی رہا معاملہ فتنہ کا تو عرض ہے کہ آپ جس بدعت کے خلاف بھی آواز اٹھائیں گے فتنہ لازمی ہو گا جسکے تجربات روزمرہ ہورہے ہیں پھر تو سب فتنے کے خطرات سے ڈر کر برداشت کر لیا جائے۔

(۴)

اگر تحقیق مسئلہ میں کسی عالم کا دلیل طلب کرنا یا تلاش کرنا غیر مقلدیت ہے پھر تو اکابرین علیہم الرحمة میں کوئی بھی اس عیب سے بچ نہ سکے گا کیونکہ ان حضرات کی کتابیں دلائل سے معمور ہیں جو ظاہر ہے کہ انہوں نے وہ دلائل یا کسی سے طلب کر کے ہی جمع کئے ہیں جبکہ وہ اپنے آپ کو حنفی مقلد کہلاتے رہے ہیں حضرت حکیم الامت کی کتاب حیلہ ناجزہ کو ہی لے لیں جس میں فقہ حنفی کی بجائے فقہ مالکیہ کو اختیار کیا گیا ہے اور اس پر دیو بند کے حضرات کی تصدیقات بھی ہیں تو کیا یہ حضرات حنفیہ سے خارج ہو گئے یا ان پر نعوذ باللہ، غیر مقلدیت کا الزام آئے گا یقینا نہیں آئے گا تو پھر علامہ عبدالحئ لکھنوی کی تحقیق پر عمل کرنے والے کو یہ الزام کیوں دیا جاتا ہے؟ ان هذا لشنی عجاب " ماقبل میں فریقین کے دلائل مختصر آنجناب کی خدمت میں ارسال کئے ہیں آنجناب شرع شریف کی روشنی میں اپنی رائے گرامی سے مطلع فرمائیں کہ مسح رقبہ کا کون سا طریقہ اقرب الی السنۃ ، ہے؟ جس جانب کا اختیار کریں تو فریق ثانی کے دلائل کے بالتفصیل جوابات بھی عنایت فرمائیں۔ السائل مولا نا محمد معاذ مدرس دارالعلوم حنفیہ چکوال جواب: مسح رقبہ کے حکم میں حضرات فقہاء کرام کی آراء مختلف ہیں ۔ عند البعض سنت، عند البعض ادب، اور عند البعض بدعت ہے لیکن بدعت کا قول صیغہ تمریض سے منقول ہے جو قابل التفات نہیں ہے لیکن طریقہ سے رقبہ میں تمام حضرات فقہاء کرام نے یکساں الفاظ نقل فرمائے ہیں بظهر اليدين “ وغیرہ کے، واضح ہوا کہ طریقہ مسح رقبہ عند الفقہاء متفق علیہ ہے متفق علیہ طریقہ کو چھوڑ کر اپنی طرف سے قیاسات پر عمل کرنا یا شبہات کا شکار ہونا اچھا نہیں ہے

واللہ تعالی اعلم

 

 


سوال :۔ آیا گردن کے مسح کا ثبوت قرآن وسنت سے ہے یا نہیں؟ اور اس کی حیثیت شرعیہ کیا ہے؟؟

 

گردن کا مسح ثابت ہے

سوال :۔ آیا گردن کے مسح کا ثبوت قرآن وسنت سے ہے یا نہیں؟ اور اس کی حیثیت شرعیہ کیا ہے؟؟

 

جواب : گردن کا سح کرنا وضو کے آداب میں سے ہے جس کونا جائز یا بدعت نہیں کہا جا سکتا۔

واللہ تعالی علم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے دعا منگواتے ہوئے ایصال ثواب کے وقت کہا کہ چودہ معصومین ) فقیر نے دعا کے اختتام پر کہا کہ ایسا کہنا جائز نہیں تو موصوف نے آگے سے تکرار کرنا چاہا جب کہ فقیر اس پر خاموش ہو گیا موصوف کے ایک مر ہی کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے مہمان کی بیعزتی کی ہے تقریبا تیس چالیس لوگوں کی موجودگی میں شرعی مسئلہ بیان فرمائیں۔

 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے دعا منگواتے ہوئے ایصال ثواب کے وقت کہا کہ چودہ معصومین ) فقیر نے دعا کے اختتام پر کہا کہ ایسا کہنا جائز نہیں تو موصوف نے آگے سے تکرار کرنا چاہا جب کہ فقیر اس پر خاموش ہو گیا موصوف کے ایک مر ہی کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے مہمان کی بیعزتی کی ہے تقریبا تیس چالیس لوگوں کی موجودگی میں شرعی مسئلہ بیان فرمائیں۔

 

(2)

اس کے بعد موصوف نے قتل خوانی کی محفل میں خطاب کیا تو اس میں موصوف نے کچھ چیزیں بیان کیں جو کہ فقیر کی تحقیق کے مطابق من گھڑت ہیں ایک تو یہ روایت پڑھی لحمک لحمی جسمک جی ایک دمی اس کے بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں۔

(3)

اس کے بعد موصوف نے قتل لا استلم اس آیت کی تفسیر میں کہ یہاں سے صرف پانچ ہستیوں سے مودت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں؟

الجواب ۔۔۔

1...واضح رہے کہ ھر انسان جب بھی بات کرتا ہے تو وہ اپنی سوچ ،اپنے نظرے اور اپنے عقیدے کے مطابق بات کرتا ہے ،

لہذا مذکورہ شخص نے ایصال ثواب میں 14معصومین کا ذکر کیا ، تو ایصال ثواب تو ھم سنی اھل والجماعت کے ھاں بھی جائز ھے ، لیکن چودہ معصومین کہنا ، یہ شیعوں کا عقیدہ اور نظریہ ھے ، چنانچہ ملاحظہ فرمائیں ،

چودہ معصومین شیعوں کے یہاں رائج ایک عنوان ہے جسے وہ پیغمبر اکرمؐ، حضرت فاطمہ(س) اور اپنے بارہ اماموں پر اطلاق کرتے ہیں جو ان کے مطابق معصوم اور ہر قسم کے گناہ اور غلطی سے مبرا ہیں۔ ان کا یہ اعتقاد آیت تطہیر، آیت اولو الامر، حدیث ثقلین اور دیگر کئی آیات اور روایات سے مستدل ہیں۔۔۔!!

بہرحال یہ مذکورہ شخص شیعہ یا شیعوں سے متاثر شخص ھوگا ،

یہ مجلس کرانے والے اگر سنی اھل سنت والجماعت مسلک سے تعلق رکھتے ھیں ،تو ان کو چاھئے تھا کہ اس طرح کے بدعتی شخص کو مجلس میں نہ بلاتے ،جب بلا لیا تو وہ اپنے نظرے کے مطابق دعا کرے گا اور بات کرکے گا،

اور اس طرح کے شخص سے بحث کرنا بھی مناسب نہیں ہے ،

2..باقی لحمک لحمی والی روایت گھڑت ھے ، یہ شعیوں کے ھاں ویسے مشہور ہے ،

3..باقی یہ قل لا اسالکم علیه صرف پانچ تن پاک کی مودت کی بات کی ھے جوکہ غلط ھے،

طاؤس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے اس آیت «قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربى» ”اے نبی! کہہ دو میں تم سے (اپنی دعوت و تبلیغ کا) کوئی اجر نہیں مانگتا، ہاں چاہتا ہوں کہ قرابت داروں میں الفت و محبت پیدا ہو“ (الشوریٰ: ۲۳)، کے بارے میں پوچھا گیا، اس پر سعید بن جبیر نے کہا: «قربیٰ» سے مراد آل محمد ہیں، ابن عباس نے کہا: (تم نے رشتہ داری کی تشریح میں جلد بازی کی ہے) قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں تھی جس میں آپ کی رشتہ داری نہ ہو، (آیت کا مفہوم ہے) اللہ نے کہا: میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا (بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ) ہمارے اور تمہارے درمیان جو رشتہ داری ہے اس کا پاس و لحاظ رکھو اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہما سے آئی ہے۔۔!!

واللہ اعلم باالصواب

محمد شریف چترالی

عفی عنہ

سوال مظفر اباد کے سوکھے قلچے بناتے ھوئے جو گندہ پسینہ جاتا ھے قلچے میں تنور کی روٹی میں جاتا ھے اس کے بارے شرعی حکم کیا ھے

 

سوالمظفر اباد کے سوکھے قلچے بناتے ھوئے جو گندہ پسینہ جاتا ھے قلچے میں تنور کی روٹیمیں جاتا ھے اس کے بارے شرعی حکم کیا ھے

الجواب ۔۔۔!!!

واضح رہے کہ انسانی بدن کا پسینہ پاک ھے ، جب تک بدن پر گندگی نجاست نہیں لگی ھے اس وقت تک پسینہ پاک ھے ، وہ کپڑے کے ساتھ لگے یا کھانے پینے کی چیزوں میں گرے ،

البتہ دین اسلام نے ھمیں پاکی اور صفائی ستھرائی کی ترغیب دی ھے ، تو بدن پر میل کچیل پسینہ سے مل جائے ، تو اس سے کوئی چیز ناپاک نہیں ھوتی ، البتہ مکروہ ھوجاتی ھے ،

لہذا صورت مسئولہ میں قلچے یا روٹی میں عام طور پر گرمی کی شدت کی وجہ سے پسینہ گرتا یا لگتا ھے ، تو اس سے قلچے یا روٹی ناپاک ھوکر حرام نہیں ھوجاتے ، بلکہ پاک اور حلال ھیں ، ان کو کھانا جائز ھے۔۔۔!!!

واللہ اعلم باالصواب

مفتی محمد شریف چترالی عفی عنہ

سوال:۔ وضو کرتے وقت ہر ہر عضو دھونے کی جو دعائیں پڑھی جاتی ہیں وہ کونسی ہیں؟

 

دوران وضو پڑھی جانے والی ادعیہ

سوال:۔وضو کرتے وقت ہر ہر عضو دھونے کی جو دعائیں پڑھی جاتی ہیں وہ کونسی ہیں؟

جواب :۔

عالمگیری ج اص و پر آداب وضو میں لکھا ہے کہ ہر ہر عضو کو دھوتے وقت بسم اللہ پڑھی جائے اس کے ساتھ ساتھ کئی کرتے ہوئے یہ دعا پڑھیں اللهم اعنى على تلاوة القرآن وذكرك وشكرك وحسن عبادتك ناک میں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھیں اللهم ارحنى رائحة الجنة ولا ترحنى رائحة النار چہره دھوتے وقت یہ پڑھیں اللهم بيض وجهى يوم تبيض وجوه وتسود وجوہ “ دایاں بازو دھوتے وقت یہ پڑھیں اللهم اعطنی کتابی بیمینی و حاسبني حسابا يسيراً " بایاں بازو دھوتے وقت یہ پڑھیں ” اللهم لا تعطنی کتابی بشمالی ولا من وراء ظهری سر کا مسح کرتے وقت یہ پڑھیں اللهم اظلني تحت ظل عرشك يوم لا ظل الا ظل عرشك كانوں كا سح کرتے وقت یہ پڑھیں اللهم اجعلنى من الذين يستمعون القول فيتبعون احسنه گردن کا مسح کرتے وقت یہ پڑھیں ”اللهم اعتق رقبتی من النار “ دایاں پاؤں دھوتے وقت یہ پڑھیں ” اللهم ثبت قدمى على الصراط يوم تزل الاقدام“ بایاں پاؤں دھوتے وقت "اللهم اجعل ذنبي مغفور أوسعى مشكور او تجارتي لن تبور یہ پڑھیں اور پھر ہر ہر عضو کو دھونے کے بعد درود شریف بھی پڑھیں۔

واللہ تعالی اعلم

سوال:۔ وضو کے دوران ہاتھ کی انگلیوں کے خلال کا موقع کیا ہے؟ نیز ہاتھوں کے خلال کے مختلف طریقے ہیں صحیح اور راجح طریقہ کی بے غبار وضاحت فرمائیں ۔ نیز داڑھی کے خلال اور پاؤں کے خلال کے بارے میں مختلف طرق رائج ہیں راجح کی وضاحت فرمائیں

 

انگلیوں اور داڑھی کے خلال کا طریقہ

سوال:۔وضو کے دوران ہاتھ کی انگلیوں کے خلال کا موقع کیا ہے؟ نیز ہاتھوں کے خلال کےمختلف طریقے ہیں صحیح اور راجح طریقہ کی بے غبار وضاحت فرمائیں ۔ نیز داڑھی کےخلال اور پاؤں کے خلال کے بارے میں مختلف طرق رائج ہیں راجح کی وضاحت فرمائیں

جواب :۔

بازؤں کو کہنیوں سمیت دھوتے وقت انگلیوں کا خلال کیا جائے خلال کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے اوپر کی طرف نکال لیا جائے ۔ پاؤں کی انگلیوں میں

خلال بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کو داہنے پیر کی چھوٹی انگلی اور اس کے برابر والی انگلی کے درمیان اس طرح داخل کر کے اس انگلی کو اوپر کی جانب نکال لیں اسی طرح تمام پاؤں کی انگلیوں میں خلال کیا جائے خلال کی ابتداء دائیں پاؤں کی چھوٹی انگلی سے شروع ہو کر بائیں پاؤں کی چھوٹی انگلی پر اختتام ہو اور داڑھی میں خلال کا طریقہ یہ ہے کہ داہنا ہاتھ کو سیدھا کر کے ٹھوڑی کے نیچے سے داڑھی میں داخل کر کے باہر کی طرف نکالا جائے۔

اسی طرح داڑھی کے داہنی اور بائیں حصہ کی سمت خلال کیا جائے

 واللہ تعالی اعلم

فتویٰ

یہ بلاگ تلاش کریں

آپ کا مطلوبہ فتویٰ تلاش کریں: مسئلہ، سوال، یا عنوان لکھیں

"قرآن، حدیث، فقہ، اسلامی تاریخ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح، طلاق، فتاویٰ، مسنون دعائیں، درود شریف،

مشہور اشاعتیں

About me

Welcome to Wisdom Nexus. I'm Muhammad Abu Ubaidah, an Islamic scholar and educator from Kot Addu, Pakistan. I have completed the full Dars-e-Nizami course۔Thank you for being here.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *