گردن کا مسح الٹے ہاتھ سے ہے
سوال :۔
یابظهور الکف ،، (یعنی ہاتھ کی الٹی جانب ) سے ایک فریق شق اول کو لئے ہوئے ہے دوسرا فریق شق ثانی کو۔
دلائل فریق اول : ( مسح رقبہ بظهور الکفین امر تعبدی ہے یا
قیاس اگر امر تعبدی ہے تو اس کے لئے کوئی حدیث چاہیئے جسمیں ، صبح ظہور الکفین ،
کی صراحت ہو یا کم از کم کسی صحابی کا قول ہی ہو مگر ایسی کوئی روایت موجود نہیں
نہ ہی احناف کے ائمہ ثلاثہ سے اس کی تصریح منقول ہے چنانچہ علامہ عبدالحٰئ لکھنوی
السعایہ / ۷۸ پر لکھتے ہیں
اما ما ذكره اصحابنا منهم صاحب النهاية وغيره في
كيفيته انه بمسح الرقبة بعد مسح الرأس والاذنين بظهور الاصابع الثلث فلم اجد له
اصلا و لذا تركته بعد ما كنت اعمله واخذت بماثبت في الاحاديث
جب روایت کوئی نہیں تو قیاس کی طرف رجوع ہو گا لہذا دیگر ممسوحات
مثلاً سر موزے، تیم وغیرہ بباطن کف ہیں ۔ اسی طرح مسح رقبہ بھی ،، بباطن الکف ، ،
ہو گا ور نہ تو اس قیاس سے عدول کی طرف دلیل چاہئے کہ اس کے استثناء کی کیا وجہ
ہے؟
(۲)
مفتی رشید احمد لدھیانوی اپنے رسالہ طریقہ سی و
تیم میں لکھتے ہیں کہ اس تحریر میں بظهور الا صابع کے عدم ثبوت کا قول
بلاشبہ صحیح ہے علاوہ ازیں الاذنان مع الرأس سے بھی ثابت ہوا کہ
"مسحرقبة مؤخر بماء جديد
ببطون الاصابع ہے۔
(۳)
ایک غیر ثابت شدہ طریقہ ( جو خلاف قیاس ہے ) کہ
عوام تو کجا خواص بھی سنت سمجھ رہے ہیں اور اس پر مصر ہیں اس کے خلاف کرنے والے کو
غلط سمجھتے ہیں اس طرح کا التزام اور شدت تو کسی ثابت شدہ مستحب پر بھی کیا جائے
تو اس میں بھی کراہت آجاتی ہے جیسا کہ فتاوی محمودیہ میں ہے ۔ الاصرار عليه المندوب
يبلغه إلى حد الكراهة ( ٤٣/١١) اور مسح بظهور الاصابع “ کے تو ثبوت پر کوئی
دلیل بھی نہیں تو کیا اس کا ترک لازم نہ ہوگا۔
(۴)
در مختار میں ہے اذا تردد الحكم بين السنة والبدعة كان الترك السنة
اولى شمالى ۴۷۵/۱) جب ثابت شدہ سنت کے متعلق
یہ حکم ہے تو غیر ثابت شدہ طریقہ کا ترک لازم کیوں نہیں؟
(۵)
غالبا جمائی یا دعا استسقاء کے وقت ہاتھ کی پشت
استعمال کرنے کے علاوہ کوئی بھی شرعی حکم ، ظہر الکف ،، کے ساتھ متعلق نہیں۔
فریق ثانی کے دلائل
(1) فتاوی عالمگیری ، فتح القدیر جلبی کبیر، انهر الفائق ، فتاوی
شامی بہشتی زیور و غیر ہا میں، مسح بظهر الاصابع ، لکھا ہے۔
- صاحب عنایہ نے مروجہ طریقہ کو
بروایت حضرت عائشہ ثابت کیا ہے۔ (۲)
سب اکابرین ، بزرگوں، علماء اور عوام کا تعامل چلا
آ رہا ہے اور تعامل بھی اجماع کی ایک(۳)
صورت ہے اس کے خلاف کرنے سے بڑا فتنہ ہوگا۔
جب سب اکابرین لکھ گئے ہیں اور فقہ کی معتبر
کتابوں میں مسح بظہور الاصالح مذکور ہے توظا ہر ہے کہ ان کے پاس کوئی
دلیل ضرور ہو گی ان پر اعتماد نہ کرنا اور اس سے دلیل طلب کرنا غیر مقلدیت ہے۔
جوابات از جانب فریق اول (۱) خلاف قیاس مسئلہ کا کتب
فقہ میں لکھا جانا بغیر کسی حدیث وغیرہ کی دلیل کے اس کی سنیت کے لئے کافی نہیں
اور مسیح بظهور الاصابع ، بھی خلاف قیاس ہے، قیاس کا تقاضا اس کے برعکس ہے اور کب
مذکورہ کا دفاع کرتے ہوئے عرض ہے کہ یہ کچھ بعید ہیں کہ ابتداء کسی بزرگ نے کسی ایک
بزرگ پر اعتماد کر کے اس طریقہ کو لکھ دیا ہو پھر ان پر اعتماد کرتے ہوئے بعد والے
بھی نقل در نقل کرتے آئے ہوں اور ماخذ کی طرف التفات نہ ہوا ہو اور اس کی امثلہ
کتب فقہ میں موجود ہیں چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:
قلت وقد يتفق نقل قول في نحو عشرين كتابا من كتب المتأخرين
ويكون القول خطأ اخطأ به اول واضع له فياتي من بعده وينقله عنه وهكذا ينقل بعضهم
عن بعض كما وقع ذلك في بعض مسائل ما يصح تعليقه وما لا يصح كمانبه على ذلك العلامة
ابن نجيم في بحر الرائق
(شرح عقود رسم المفتى )
بعض کتابوں میں جو عقلی دلیل دی گئی ہے کہ مسح
رقبہ ہاتھ کی پشت سے اس وجہ سے ہے کہ وہ جانب مسح الرأس" میں استعمال نہیں ہوئی لہذا اظهور الاصابع“ کی تری سے گردن کا مسح
کیا جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دلیل سے زیادہ سے زیادہ جواز ہی ثابت ہو سکتا
ہے اور جواز میں کوئی کلام و اختلاف نہیں اختلاف تو مذکورہ طریقہ کی سنیت اور عدم
سمیت میں ہے جسکے ثبوت کے لئے یہ دلیل کافی نہیں تو ظاہر ہے کہ مسح رقبہ بھی مثل
دیگر ممسوحات کے ماء جدید کے ساتھ بباطن الاصابع “ قرین قیاس ہے، چنانچہ
اگر کوئی شخص ہاتھ ترکر کے سیدھی جانب سے سر کا مسح کرے اور الٹی جانب سے موزوں پر
مسح کر لیا جائے یا ہا تھ دونوں جانب سے مٹی وغیرہ پر مار کر سیدھی جانب منہ پر
اور الٹی جانب بازؤں پر استعمال کرے یا ایک ہاتھ تر کر کے سیدھی جانب سے ایک جبیرہ
پر اور الٹی جانب سے دوسری جبیرہ پر مسح کرلے تو ایسے شخص کے متعلق آپ کیا کہیں گے
اس نے سنت طریقہ کو پالیا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ تیم مسیح خفین میں تصریح ہے مسح بباطن الكف کی کما
قال
التيمم ضربتان الخ تو ہم کہتے ہیں کہ
پاکر یہ غیر مصرح کو مصرح کی طرح ادا کرنے میں کیار کاوٹ ہے؟
(۲)
حدیث عائشہ کسی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں نہ ہی
صاحب عنایہ نے اس کی کوئی سند ذکر کی ہے لہذا اس کو تو حدیث کہنا بھی صحیح نہ ہوگا
اگر کہیں یہ روایت ثابت ہے تو اس کا حوالہ چاہیئے ۔
(۳)
کیا عبادات میں بھی تعامل کی گنجائش ہے جس کو
اجماع کا درجہ دیا جارہا ہے، اگر گنجائش ہے تو پھر بدعت نام کی کوئی چیز نہ رہے گی
کیونکہ اس میں بھی کسی قدر تعامل پایا جاتا ہے اور سح رأس وسیع تیم طریقہ مروجہ
مخترعہ کو بھی تعامل خواص وعوام حاصل ہے تو کیا اس کو بھی اجماع کا درجہ دیا جائے
گا ؟ باقی رہا معاملہ فتنہ کا تو عرض ہے کہ آپ جس بدعت کے خلاف بھی آواز اٹھائیں
گے فتنہ لازمی ہو گا جسکے تجربات روزمرہ ہورہے ہیں پھر تو سب فتنے کے خطرات سے ڈر
کر برداشت کر لیا جائے۔
(۴)
اگر تحقیق مسئلہ میں کسی عالم کا دلیل طلب کرنا یا
تلاش کرنا غیر مقلدیت ہے پھر تو اکابرین علیہم الرحمة میں کوئی بھی اس عیب سے بچ
نہ سکے گا کیونکہ ان حضرات کی کتابیں دلائل سے معمور ہیں جو ظاہر ہے کہ انہوں نے
وہ دلائل یا کسی سے طلب کر کے ہی جمع کئے ہیں جبکہ وہ اپنے آپ کو حنفی مقلد کہلاتے
رہے ہیں حضرت حکیم الامت کی کتاب حیلہ ناجزہ کو ہی لے لیں جس میں فقہ حنفی کی
بجائے فقہ مالکیہ کو اختیار کیا گیا ہے اور اس پر دیو بند کے حضرات کی تصدیقات بھی
ہیں تو کیا یہ حضرات حنفیہ سے خارج ہو گئے یا ان پر نعوذ باللہ، غیر مقلدیت کا
الزام آئے گا یقینا نہیں آئے گا تو پھر علامہ عبدالحئ لکھنوی کی تحقیق پر عمل کرنے
والے کو یہ الزام کیوں دیا جاتا ہے؟ ان هذا لشنی عجاب " ماقبل میں فریقین
کے دلائل مختصر آنجناب کی خدمت میں ارسال کئے ہیں آنجناب شرع شریف کی
روشنی میں اپنی رائے گرامی سے مطلع فرمائیں کہ مسح رقبہ کا کون سا طریقہ اقرب
الی السنۃ ، ہے؟ جس جانب کا اختیار کریں تو فریق ثانی کے دلائل کے بالتفصیل جوابات
بھی عنایت فرمائیں۔ السائل مولا نا محمد معاذ مدرس دارالعلوم حنفیہ چکوال جواب:
مسح رقبہ کے حکم میں حضرات فقہاء کرام کی آراء مختلف ہیں ۔ عند البعض سنت، عند
البعض ادب، اور عند البعض بدعت ہے لیکن بدعت کا قول صیغہ تمریض سے منقول ہے جو
قابل التفات نہیں ہے لیکن طریقہ سے رقبہ میں تمام حضرات فقہاء کرام نے یکساں الفاظ
نقل فرمائے ہیں بظهر اليدين “ وغیرہ کے، واضح ہوا کہ طریقہ مسح رقبہ عند الفقہاء متفق علیہ
ہے متفق علیہ طریقہ کو چھوڑ کر اپنی طرف سے قیاسات پر عمل کرنا یا شبہات کا شکار
ہونا اچھا نہیں ہے
واللہ تعالی اعلم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں