مسلہ یہ ہے کہ قانون کے طالبعلم عدالت جا کر پریکٹس کرتے ہے۔ اور کسی سینئر وکیل کے ماتحت کام کرتے ہے۔ وه وکیل ہر قسم کے جائز نا جائز کیسز لیتے ہے۔ تو ایسے میں کیا طالبعلم کے لیے پریکٹس کرنا جائز ہے؟ اور عموما یہ پریکٹس بس سیکھنے کے لیے کچھ مہینو ں کے لیے ہی ہوتی ہے۔

 

مسلہ یہ ہے کہ قانون کے طالبعلم عدالت جا کر پریکٹس کرتے ہے۔ اور کسی سینئر وکیل کے ماتحت کام کرتے ہے۔ وه وکیل ہر قسم کے جائز  نا جائز کیسز لیتے ہے۔  تو ایسے میں کیا طالبعلم کے لیے پریکٹس کرنا جائز ہے؟ اور عموما یہ پریکٹس بس سیکھنے کے لیے کچھ مہینو ں کے لیے ہی ہوتی ہے۔

الجواب

صورتِ مسئولہ میں وکالت  کا پیشہ اختیار کرنے والا کوئی شخص اگر  ناحق کسی شخص کی وکالت نہ کرے، کسی نا حق بات کو ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، نیز جھوٹ، دھوکا اور رشوت کا سہارا نہ لے تو   وکالت کے پیشہ اختیار کرنے  میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی شخص اس پیشے سے محض پیسے کمانے کے بجائے  احقاقِ حق اور مظلوموں کی مدد کرنے کی نیت کرے تو باعثِ ثواب ہوگا ۔اوراسکے ساتھ نوکری کرنا بھی ٹھیک ہے اگر وہ ناجائز طریقے سے کیسسز حل کرتا ہے تو پھر ٹھیک نہیں ہے

 

"والصواب أن مراد صاحب العناية هو أنه قد يكون في نفس الوكالة التعاوض كما إذا أخذ الوكيل الأجرة لإقامة الوكالة فإنه غير ممنوع شرعا، إذ الوكالة عقد جائز لا يجب على الوكيل إقامتها فيجوز ‌أخذ ‌الأجرة فيها."

 

(كتاب الوكالة، ج:8، ص:3، ط:دار الفكر)

 

فتاوی شامی میں ہے:

 

"(وكره) تحريما (التقلد) أي أخذ القضاء (لمن خاف الحيف) أي الظلم (أو العجز) يكفي أحدهما في الكراهة ابن كمال (وإن تعين له أو أمنه لا) يكره فتح ثم إن انحصر فرض عينا وإلا كفاية بحر

."

فقط  واللہ اعلم

فتویٰ

یہ بلاگ تلاش کریں

آپ کا مطلوبہ فتویٰ تلاش کریں: مسئلہ، سوال، یا عنوان لکھیں

"قرآن، حدیث، فقہ، اسلامی تاریخ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح، طلاق، فتاویٰ، مسنون دعائیں، درود شریف،

مشہور اشاعتیں

About me

Welcome to Wisdom Nexus. I'm Muhammad Abu Ubaidah, an Islamic scholar and educator from Kot Addu, Pakistan. I have completed the full Dars-e-Nizami course۔Thank you for being here.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *