الجواب
صورتِ
مسئولہ میں وکالت کا پیشہ اختیار کرنے
والا کوئی شخص اگر ناحق کسی شخص کی وکالت
نہ کرے، کسی نا حق بات کو ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، نیز جھوٹ، دھوکا اور رشوت کا
سہارا نہ لے تو وکالت کے پیشہ اختیار
کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ اگر
کوئی شخص اس پیشے سے محض پیسے کمانے کے بجائے
احقاقِ حق اور مظلوموں کی مدد کرنے کی نیت کرے تو باعثِ ثواب ہوگا ۔اوراسکے
ساتھ نوکری کرنا بھی ٹھیک ہے اگر وہ ناجائز طریقے سے کیسسز حل کرتا ہے تو پھر ٹھیک
نہیں ہے
"والصواب أن مراد
صاحب العناية هو أنه قد يكون في نفس الوكالة التعاوض كما إذا أخذ الوكيل الأجرة
لإقامة الوكالة فإنه غير ممنوع شرعا، إذ الوكالة عقد جائز لا يجب على الوكيل
إقامتها فيجوز أخذ الأجرة فيها."
(كتاب الوكالة، ج:8،
ص:3، ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكره) تحريما
(التقلد) أي أخذ القضاء (لمن خاف الحيف) أي الظلم (أو العجز) يكفي أحدهما في
الكراهة ابن كمال (وإن تعين له أو أمنه لا) يكره فتح ثم إن انحصر فرض عينا وإلا
كفاية بحر
."
فقط
واللہ اعلم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں