بدھ، 30 اپریل، 2025

کیا تمباکو کی فصل کی کاشت اور اس کی فروخت شرعاً جائز ہے؟ نیز، اگر تمباکو سگریٹ فیکٹری میں استعمال ہو تو کیا یہ آمدنی حرام شمار ہوگی؟

 

کیا تمباکو کی فصل کی کاشت اور اس کی فروخت شرعاً جائز ہے؟ نیز، اگر تمباکو سگریٹ فیکٹری میں استعمال ہو تو کیا یہ آمدنی حرام شمار ہوگی؟

جواب

جی ہاں، شریعت کی رو سے تمباکو کی کاشت اور اس کی تجارت فی نفسہ جائز ہے۔
البتہ چند اہم شرائط اور احتیاطی امور ملحوظ رکھنا ضروری ہیں

تاویٰ محمودیہ۱۸/۳۹۷) میں درج ہے

"تمباکو کی کاشت جائز ہے، تجارت بھی جائز ہے، اور استعمال بھی جائز ہے الا یہ کہ وہ نشہ آور ہو جائے تو پھر اس سے منع کیا جائے گا۔ نیز، اگر تمباکو استعمال کیا جائے تو مسجد میں داخلے سے قبل منہ کی صفائی کر کے اس کی بدبو کو زائل کرنا ضروری ہے۔"

 اہم وضاحت

  • اگرچہ سگریٹ میں تمباکو استعمال ہوتا ہے، مگر سگریٹ بذاتِ خود نشہ آور اشیاء میں شمار نہیں ہوتا۔
  • اس بنیاد پر تمباکو کا سگریٹ فیکٹری میں جانا اس پر "حرام" کا حکم لازم نہیں کرتا۔
  • لہٰذا، تمباکو کی پیداوار اور اس کی تجارت جائز ہے۔

مگر بہتر کیا ہے؟

اگرچہ تمباکو کی تجارت اور کاشت جائز ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ احتیاطاً ایسی فصل یا تجارت اختیار کی جائے جو معاشرتی و جسمانی لحاظ سے زیادہ مفید ہو۔
کیونکہ بعض صورتوں میں تمباکو نقصان دہ یا نشہ آور چیزوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔

 فقہی اصول کی روشنی میں

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں "تتن" (یعنی تمباکو) کے بارے میں لکھا ہے

"اصل قاعدہ یہی ہے کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں صریح ممانعت نہ ہو، تو اصل حکم اباحت (یعنی جواز) کا ہے۔"

خلاصہ

مسئلہ

شرعی حکم

تمباکو کی کاشت

جائز

تمباکو کی تجارت

جائز

تمباکو کا سگریٹ فیکٹری میں جانا

ناجائز نہیں

تمباکو کے استعمال سے بدبو

مسجد کے آداب کے خلاف، منہ صاف کرنا لازم

احتیاطاً متبادل فصل

بہتر اور افضل

از مفتی محمد شریف چترالی عفی عنہ

کیا یہ درست ہے کہ جنت کا دروازہ سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کے لیے کھلے گا، مگر ایک عورت آپ سے آگے نکل جائے

                                         کیا یہ درست ہے کہ جنت کا دروازہ سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کے لیے کھلے گا، مگر ایک عورت آپ سے آگے نکل جائے 

جواب
جی ہاں، مسند یعلی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

"سب سے پہلے میرے لیے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا، مگر ایک عورت مجھ سے آگے نکل جائے گی۔ میں اس سے کہوں گا: تُو کون ہے؟ وہ کہے گی: میں وہ عورت ہوں جس نے اپنے یتیم بچوں کی پرورش کے لیے (دوسری شادی نہ کی اور) دنیاوی راحتوں کو ترک کر دیا۔"

یہ روایت ماں کی عظمت، قربانی اور اخلاص کی گواہی ہے، جسے دین اسلام بہت بلند مقام دیتا ہے۔

سوال  2

کیا یہ بات درست ہے کہ "عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے جائے گی"؟

جواب
نہیں، یہ بات من گھڑت اور موضوع روایت ہے۔ اہلِ علم کے مطابق یہ قول نہ قرآن میں موجود ہے، نہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ ایسی جھوٹی اور خود ساختہ روایات کا بیان کرنا یا آگے پھیلانا شرعاً درست نہیں۔ دین کی سچائی اور اصل تعلیمات کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔

 مزید وضاحت

ایک دوسری مستند روایت کے مطابق، تین افراد جہنم میں سب سے پہلے داخل ہوں گے

1.    ظالم و جابر بادشاہ

2.    وہ دولت مند جو زکوٰۃ نہ دے

3.    وہ فقیر جو فخر اور غرور کرتا ہے

یہ روایت اسلامی معاشرت میں عدل، انکساری، اور فریضہ زکوٰۃ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

از مفتی محمد شریف چترالی عفی عنہ

منگل، 29 اپریل، 2025

کیا کسی بیماری، وبا یا شکرانے کے طور پر جانور ذبح کرنا جائز ہے؟

                                                                                                      کیا کسی بیماری، وبا یا شکرانے کے طور پر جانور ذبح کرنا جائز ہے؟

جواب

اس بارے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے تفصیل سے وضاحت فرمائی ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے

 دو قسم کی نیتیں ہو سکتی ہیں

اگر ذبح مقصود نہ ہو، بلکہ اصل مقصد صدقہ و خیرات ہو

جیسے کہ انسان گوشت خرید کر غریبوں کو کھلانا چاہے، لیکن سہولت کی خاطر خود جانور ذبح کر کے گوشت بانٹ دیتا ہے۔

اگر اس کا دل اس بات پر مطمئن ہو کہ مارکیٹ سے گوشت لے کر بھی صدقہ کر دے تو بات بن جائے گی، اور ذبح محض ذریعہ ہے، تو یہ جائز ہے۔

اگر خود ذبح کرنا ہی مقصود ہو اور اسی کو شکر یا دفع بلا کا خاص ذریعہ سمجھا جائے

جیسے بعض لوگ مریض کی صحت یابی یا وبا کے خاتمے کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں اور اسے فدیہ یا نذرانہ سمجھتے ہیں۔

ایسی نیت کے ساتھ ذبح کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں ذبح کو بذاتِ خود مؤثر سمجھا جا رہا ہے، جو شرعی قواعد سے درست نہیں۔

 فقہی عبارت حوالہ

’’اگر خود ذبح ہی مقصود ہو اور ذبح ہی کو بخصوصہ طریقہ شکر و قربت سمجھے، سو قواعد سے یہ درست معلوم نہیں ہوتا…‘‘

(امداد الفتاوی: ۳/۵۷۰)

فقط واللہ اعلم بالصواب

مرد کتنے گرام چاندی کی انگوٹھی استعمال کرسکتا ہے؟ اور کیا وہ چاندی کی چین گلے میں پہن سکتا ہے؟

 

مرد کتنے گرام چاندی کی انگوٹھی استعمال کرسکتا ہے؟ اور کیا وہ چاندی کی چین گلے میں پہن سکتا ہے؟

جواب

چاندی کی انگوٹھی

مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے، بشرطیکہ اس کا وزن ایک مثقال سے زیادہ نہ ہو۔

ایک مثقال کا وزن تقریباً ۴.۳۷۴ گرام (یعنی ساڑھے چار ماشے) بنتا ہے۔

اس سے زائد وزن کی چاندی کی انگوٹھی مرد کے لیے ناجائز ہے۔

تاہم، عام مسلمان مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی بھی نہ پہننا افضل اور بہتر ہے، اگرچہ جائز ہے۔

دیگر دھاتوں کی انگوٹھی

مرد کے لیے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات (جیسے سونا، لوہا، تانبا، اسٹیل وغیرہ) کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

"چاندی کی، مگر ایک مثقال تک اس کا وزن نہ پہنچے۔"

چاندی کی چین یا دیگر زیورات

مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی کے علاوہ کوئی بھی زیور پہننا جائز نہیں، چاہے وہ

چاندی کی چین ہو،

بریسلیٹ ہو،

یا کوئی اور زیور۔

مرد کا زیور پہننا (سوائے مذکورہ مقدار کی چاندی کی انگوٹھی کے) حرام ہے۔

فقہی حوالہ

در مختار مع رد المحتار (6/358) میں فرمایا گیا

"(ولا يتحلى) الرجل (بذهب وفضة) مطلقاً، (إلا بخاتم... من الفضة)... ولا يزيده على مثقال۔"

ہفتہ، 26 اپریل، 2025

اگر کوئی شخص امام کے قعدہ اولیٰ (پہلے تشہد) میں آ کر اقتداء کرے اور امام فوراً تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے، تو کیا مقتدی بھی فوراً کھڑا ہو جائے گا یا پہلے التحیات مکمل کرے گا؟

 

نماز میں قعدہ اولیٰ و اخیرہ کے دوران شامل ہونے والے مقتدی کا حکم – ا

اکثر لوگ اس اہم مسئلے سے ناواقف ہیں، حتیٰ کہ بعض ائمہ اور خواص بھی اس میں غلطی کر جاتے ہیں

سوال نمبر

اگر کوئی شخص امام کے قعدہ اولیٰ (پہلے تشہد) میں آ کر اقتداء کرے اور امام فوراً تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے، تو کیا مقتدی بھی فوراً کھڑا ہو جائے گا یا پہلے التحیات مکمل کرے گا؟

جواب

مقتدی کو لازم ہے کہ پہلے "التحیات" مکمل کرے، پھر کھڑا ہو۔

اگر وہ امام کے ساتھ فوراً کھڑا ہو جائے اور التحیات نہ پڑھے، تو اس کی نماز مکروہ تحریمی ہو جائے گی۔

 یہ حکم فرض نماز اور تراویح دونوں کے لیے ہے۔

سوال نمبر

اگر کوئی شخص امام کے قعدہ اخیرہ (آخری تشہد) میں شامل ہو اور بیٹھتے ہی امام سلام پھیر دے، تو کیا وہ فوراً کھڑا ہو جائے یا پہلے التحیات مکمل کرے؟

جواب

اس مقتدی پر واجب ہے کہ وہ اطمینان سے التحیات مکمل کرے، پھر کھڑا ہو کر بقیہ نماز پوری کرے۔

اگر وہ فوراً کھڑا ہو جائے اور التحیات نہ پڑھے تو اس کی نماز بھی مکروہ تحریمی ہو گی۔

 حوالہ: شامی، جلد 1، صفحہ 296

حالت       مقتدی کا حکم

قعدہ اولٰی میں امام کے ساتھ شامل ہوا         التحیات مکمل کرے، پھر کھڑا ہو

قعدہ اخیرہ میں امام کے ساتھ شامل ہوا        امام کے سلام کے بعد التحیات مکمل کرے، پھر کھڑا ہو

 عوامی غفلت

یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر لوگ ان دونوں مواقع پر التحیات مکمل نہیں کرتے، بلکہ فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نماز مکروہ تحریمی ہو جاتی ہے۔ یہ ایک اہم دینی مسئلہ ہے جس کا سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

 دعا

اَللّٰهُمَّ فَقِّهْنَا فِي الدِّينِ

"اے اللہ! ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما۔"

محمد ابوعبیدہ

جمعہ، 25 اپریل، 2025

بچپن میں نکاح، بالغ ہونے پر والدین کا انکار — کیا عدالت اسے ختم کر سکتی ہے؟

 

بچپن میں نکاح، بالغ ہونے پر والدین کا انکار — کیا عدالت اسے ختم کر سکتی ہے؟

سوال

اگر بچپن میں والدین نے اپنی بیٹی کا نکاح کسی لڑکے سے کر دیا، اور بعد میں خاندان میں اختلاف یا ناراضی کی وجہ سے وہ رشتہ برقرار رکھنا نہ چاہیں،

اب جبکہ لڑکی بالغ ہو چکی ہے اور لڑکا ابھی نابالغ ہے، تو کیا عدالت سے رجوع کر کے اس نکاح کو ختم کرایا جا سکتا ہے؟

 جواب

صورتِ مسئولہ میں

اگر نابالغ بیٹی کا نکاح اس کے والد نے کیا ہو

تو ایسا نکاح شرعاً معتبر اور منعقد ہو جاتا ہے۔

 ایسا نکاح "ولایت" کی بنیاد پر ہوتا ہے، اور شریعت نے والد یا دادا کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نابالغ اولاد کا نکاح ان کی بہتری کے پیشِ نظر کر سکتے ہیں۔

 بالغ ہونے کے بعد نکاح ختم کرنے کا اختیار؟

جب بیٹی بالغ ہو جاتی ہے تو اسے نکاح سے انکار کا اختیار (خیارِ فسخ) نہیں رہتا — اگر نکاح والد نے کیا ہو، اور اس میں واضح نقصان یا بددیانتی کا پہلو نہ ہو۔

اسی طرح عدالت کو بھی اس شرعی نکاح کو ختم کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔

 نکاح شرعی طور پر قائم ہو چکا ہے، اور اب اس کو صرف شرعی طریقے سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے — عدالت کے فیصلے سے نہیں

 فتاویٰ شامی کا حوالہ

"ولزم ولو بغبن فاحش أو بغير كفء إن كان الولي أبا أو جدا لم يعرف منهما سوء الاختيار..."

(الطلاق، ج:3، ص:54)

یعنی

 

"اگر ولی (والد یا دادا) ہو، اور ان سے سوء اختیار (غلط فیصلہ) معروف نہ ہو، تو نکاح لازم ہو جاتا ہے، چاہے فریقِ ثانی میں کمی ہو یا کفو نہ ہو۔"

 طلاق کا اختیار نابالغ کو نہیں

چونکہ لڑکا ابھی نابالغ ہے، اس لیے وہ شرعاً طلاق دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔

 پھر حل کیا ہے؟

لڑکے کی بلوغت کا انتظار کیا جائے۔

پھر اگر دونوں فریقین راضی نہ ہوں، تو باہمی مشاورت سے معاملہ سلجھایا جائے۔

خاندان کے معزز، باخبر، دیندار افراد اس میں رہنمائی کریں۔

 اس مسئلہ کا حل شرعی مشاورت اور صبر و حکمت سے نکالا جائے۔

 مفتی محمد شریف فاروقی (عفی عنہ)      

کیا رفع الیدین پوری زندگی سنتِ رسول ﷺ رہا؟ یا آخری ایام میں ترک کر دیا گیا؟

 

کیارفع الیدین پوری زندگی سنتِ رسول ﷺ رہا؟ یا آخری ایام میں ترک کر دیا گیا؟

الجواب۔۔!!!

دین اسلام کے شرعی مسائل قسمیں کھا کر، جذباتی انداز اپناتے ہوئے یا خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر ثابت نہیں کیے جاتے۔

اسلام کا دین قرآن، سنت اور ماہرین شریعت کے دلائل پر قائم ہے، نہ کہ جھوٹی قسموں یا ظاہری جذباتی مناظر پر۔

 رفع الیدین — دونوں عمل احادیث سے ثابت

نماز میں رفع الیدین رکوع سے پہلے اور بعد میں احادیث مبارکہ سے ثابت ہے،

اور ساتھ ہی اس کا ترک کرنا (یعنی نہ کرنا) بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

 اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں طریقے سنت سے ماخوذ ہیں، اور کسی ایک طریقے کو مطلقاً باطل قرار دینا علمی خیانت اور ظلم ہے۔

 ائمہ کرام کا مؤقف

 امام اعظم ابوحنیفہؒ

اور

 امام مالکؒ

دونوں جلیل القدر ائمہ فرماتے ہیں

رسول اللہ ﷺ نے آخری ایام میں رفع الیدین کرنا چھوڑ دیا تھا۔

 امام دارالہجرت کا تاریخی موقف

امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول نہایت اہم ہے

"میں صحیح حدیث کے مقابلے میں اہلِ مدینہ کے عمل کو حجت مانتا ہوں۔ میں نے جب سے اہلِ مدینہ کو دیکھا کہ وہ رفع الیدین نہیں کرتے، تو مجھے یقین ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری ایام میں یہ عمل ترک فرما دیا تھا۔"

یاد رہے

مدینہ منورہ وہ شہر ہے جہاں رسول اللہ ﷺ کا قیامِ آخر رہا۔

امام مالکؒ 93 ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔

یہ وہ زمانہ ہے جسے خیرالقرون کہا گیا — صحابہ کرامؓ کا دور۔

مدینہ اس وقت عالم اسلام کا سب سے معتبر علمی مرکز تھا، جہاں تابعین، تبع تابعین، محدثین اور اہلِ علم کی بڑی جماعت موجود تھی۔

 کوفہ کا علمی مقام

بعد ازاں

حضرت عثمان غنیؓ،

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ

اور حضرت علیؓ جیسے جلیل القدر صحابہ نے کوفہ کو اپنا مرکز بنایا۔

یہی وہ کوفہ ہے جہاں بعد میں

امام اعظم ابوحنیفہؒ جیسے عظیم فقیہ پیدا ہوئے۔

اور یہاں بھی رفع الیدین کا عمل جاری نہ رہا۔

 اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امت کے دو عظیم علمی مراکز — مدینہ اور کوفہ — دونوں میں ترکِ رفع الیدین کا رجحان غالب رہا۔

ایک شرعی سوال

جب دو جلیل القدر ائمہ، ایک محدث اور ایک فقیہ یہ فرما رہے ہوں کہ رفع الیدین ترک کیا گیا

تو آج ایک شخص، جو شرالقرون (یعنی سب سے کم فاضل زمانہ) میں رہ رہا ہے، وہ محض قسمیں کھا کر اور جذبات دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ

"رفع الیدین تو رسول اللہ ﷺ نے پوری زندگی کیا ہے" —

تو اس کا یہ طرز علمی دیانت کے خلاف اور دینی فہم سے خالی ہے۔

 دعا

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دینِ اسلام کی صحیح سمجھ، اعتدال، علمی دیانت اور اخلاص عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔

 مفتی محمد شریف فاروقی (عفی عنہ

نماز کے دوران کسی کو مخاطب کر کے کہنا: "جلدی کریں، میں باہر انتظار کر رہا ہوں" — شرعاً کیسا ہے؟

 

نماز کے دوران کسی کو مخاطب کر کے کہنا: "جلدی کریں، میں باہر انتظار کر رہا ہوں" — شرعاً کیسا ہے؟

الجواب

صورتِ مسئولہ میں یہ عمل مکروہ ہے۔

اگرچہ اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی، لیکن بلا ضرورت دوسروں کو مخاطب کرنا اور ان کی نماز میں مداخلت کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ نماز ایک عظیم عبادت ہے جس میں خشوع و خضوع مطلوب ہے۔ ایسے کلمات اور مداخلتیں نمازی کی توجہ ہٹا دیتی ہیں۔

 اس عمل کے نقصانات

 نمازی کی توجہ بٹ جاتی ہے

جب کوئی شخص دورانِ نماز یہ بات سن لیتا ہے کہ "میں باہر انتظار کر رہا ہوں، جلدی کریں" — تو وہ بار بار اس جملے کے بارے میں سوچتا ہے۔

 نماز میں جلد بازی پیدا ہوتی ہے

بعض اوقات نمازی اس دباؤ میں آ کر نماز جلدی جلدی پڑھ لیتا ہے، جس سے خشوع و خضوع ختم ہو جاتا ہے۔

 بلا ضرورت مداخلت عبادت کے آداب کے خلاف ہے

جب کوئی شخص بلا کسی ایمرجنسی صرف اپنی سہولت کے لیے دوسرے کی عبادت میں دخل دیتا ہے، تو یہ روحِ عبادت کے خلاف ہے۔

 کب جائز ہو سکتا ہے؟

اگر واقعی کوئی ایمرجنسی یا مجبوری ہو (جیسے گاڑی نکلنے والی ہو، مریض کی حالت خراب ہو، وغیرہ)، تو نرم لہجے میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد مخاطب کیا جائے۔

نماز کے دوران مخاطب کرنا کسی حال میں بھی مناسب نہیں۔

نماز کے دوران دوسروں کو مخاطب کرنا یا اُن پر جلدی کا دباؤ ڈالنا مکروہ عمل ہے۔ اگرچہ اس سے نماز باطل نہیں ہوتی، لیکن نماز کی روح اور ادب متاثر ہوتا ہے۔

یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جو ان لوگوں کے ذہن میں آتا ہے جو قضاء عمری کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں۔ قضاء نمازوں کی کثرت ہو تو یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کی ترتیب وقتی نمازوں کے ساتھ کیسے رکھی جائے؟ آئیے اس سوال کا واضح اور تفصیلی جواب جانتے ہیں

 

قضاءعمری کرتے ہوئے وقتی نماز پہلے پڑھی جائے یا قضاء نماز؟

یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جو ان لوگوں کے ذہن میں آتا ہے جو قضاء عمری کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں۔ قضاء نمازوں کی کثرت ہو تو یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کی ترتیب وقتی نمازوں کے ساتھ کیسے رکھی جائے؟ آئیے اس سوال کا واضح اور تفصیلی جواب جانتے ہیں

جواب

فقہی اصولوں کی روشنی میں اس بات کی اجازت ہے کہ کوئی شخص قضاء نماز پہلے پڑھے یا وقتی نماز — دونوں طریقے درست ہیں۔

 تاہم بہتر یہ ہے کہ پہلے وقتی نماز ادا کی جائے، تاکہ اس کا وقت نہ نکلے اور وہ خود بھی قضاء نہ ہو جائے۔ اس کے بعد قضاء نماز پڑھی جائے، تاکہ دونوں نمازیں ادا ہو سکیں اور ترتیب بھی برقرار رہے۔

علماء کرام نے قضاء نمازوں کی کثرت کے پیشِ نظر آسانی کے لیے یہ مشورہ دیا ہے

"ہر وقتی نماز کے بعد ایک قضاء نماز پڑھ لی جائے، تاکہ قضاء نمازوں کا بوجھ بتدریج کم ہو جائے۔"

یہ محض مشورہ ہے، کوئی شرعی فرض یا لازم نہیں۔ ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق قضاء نمازوں کا نظم بنا سکتا ہے۔

 ممنوعہ اوقات میں قضاء نماز کا حکم

ایسے اوقات جن میں نفل نماز بھی ممنوع ہے،

 مثلاً

نمازِ فجر کے بعد طلوع آفتاب تک

نمازِ عصر کے بعد غروب آفتاب تک

ان اوقات میں مسجد میں قضاء نماز پڑھنا مناسب نہیں، کیونکہ اس سے گناہ (ترکِ نماز) کا اظہار ہوتا ہے، جو شریعت میں پسندیدہ نہیں۔

 لہٰذا ان اوقات میں قضاء نماز تنہائی میں یا گھر پر ادا کی جائے۔

اجازت والے اوقات میں قضاء نماز

نمازِ ظہر، مغرب اور عشاء کے بعد چونکہ نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے،

لہٰذا ان اوقات میں قضاء نماز مسجد یا گھر، کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔

 خلاصہ

قضاء یا وقتی نماز پہلے پڑھنے میں شرعی طور پر وسعت ہے۔

بہتر یہ ہے کہ پٓہلے وقتی نماز پڑھی جائے۔

قضاء نمازوں کے لیے روزانہ ایک ترتیب بنانا آسانی کا ذریعہ ہے۔

ممنوعہ اوقات میں قضاء نماز مسجد میں نہ پڑھی جائے۔

دیگر اوقات میں قضاء نماز کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کی سچی توبہ اور باقاعدہ قضاء کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

بدھ، 23 اپریل، 2025

نماز پڑھنے والے کے آگے سے گزرنے کا حکم – ایک تفصیلی وضاحت

 

نماز پڑھنے والے کے آگے سے گزرنے کا حکم – ایک تفصیلی وضاحت

 سوال

اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو، تو کیا اس کے آگے سے گزرنا جائز ہے؟ مسجد چھوٹی ہو یا بڑی، کیا دونوں کا حکم یکساں ہے؟ اور اگر نمازی کے آگے کوئی آڑ ہو تو کیا حکم ہوگا؟

جواب (شرعی رہنمائی)

چھوٹی مسجد یا مکان میں گزرنا: اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے آگے کوئی آڑ نہ ہو، تو چھوٹی مسجد (یعنی چالیس شرعی گز سے چھوٹی جگہ) یا چھوٹے کمرے میں اس کے آگے سے گزرنا شرعاً ناجائز ہے، چاہے فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو۔

سترہ (آڑ) کا حکم: اگر نمازی کے آگے کوئی آڑ ہو، جیسے

ایک گز شرعی کے برابر اونچی

ایک انگلی کے برابر موٹی کوئی چیز

تو اس آڑ کے آگے سے گزرنا جائز ہے۔

لیکن نمازی اور آڑ کے درمیان سے گزرنا بھی ناجائز ہے۔

بڑی مسجد یا کھلے میدان میں حکم: اگر نمازی کھلی جگہ یا بڑی مسجد (چالیس شرعی گز یا اس سے بڑی) میں نماز پڑھ رہا ہو، تو اس سے اتنے فاصلے پر گزرنا جائز ہے کہ نمازی کو نظر نہ آئے۔

فقہاء نے اس کا اندازہ دیا ہے: نمازی کی جائے قیام سے تین صف آگے تک۔

احادیث میں سخت وعیدیں: نبی کریم ﷺ نے فرمایا

"اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو معلوم ہو کہ اس پر کیا وبال ہوگا، تو وہ چالیس (سال/دن/مہینے) کھڑا رہنا گوارا کرے، مگر نہ گزرے۔" (صحیح بخاری)

 اقوال فقہاء

فتاویٰ شامی

"چھوٹے مکان یا مسجد میں نمازی کے آگے سے گزرنا ہر حال میں ایک ہی جگہ گزرنے کے مترادف ہے، لہٰذا ناجائز ہے۔"

تقريرات الرافعی

"اگرچہ گھر یا مسجد بڑی ہو، پھر بھی حکم چھوٹے پر قیاس کیا جائے گا جب تک وہ واقعی وسیع نہ ہو۔"

واللہ اعلم بالصواب

کاریگر اور سامان پر چھپ کر منافع لینا – شرعی حکم کیا ہے

 

کاریگر اور سامان پر چھپ کر منافع لینا – شرعی حکم کیا ہے؟

سوال

اکثر کاریگر جب کسی گاہک کے لیے مارکیٹ سے سامان خرید کر لاتے ہیں (مثلاً دروازے، رنگ، یا دیگر تعمیراتی سامان)، تو وہ سامان کی اصل قیمت سے زیادہ رقم وصول کرتے ہیں، جبکہ گاہک کو معلوم نہیں ہوتا کہ اصل قیمت کیا تھی۔ کیا یہ عمل شرعاً درست ہے؟

الجواب

چھپ کر منافع لینا ناجائز ہے: اگر کاریگر مارکیٹ سے جو سامان خریدتا ہے، اس کی اصل قیمت سے زیادہ وصول کرتا ہے بغیر گاہک کو بتائے، تو یہ شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اس طرح کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی، اور یہ دھوکہ شمار ہوتا ہے۔

شفاف طریقہ کیا ہے؟ کاریگر کے لیے بہتر یہ ہے کہ جب وہ سامان خریدے، تو اس کا بل (رسید) گاہک کو دے دے یا قیمت واضح کر دے۔ اس کے بعد وہ اسی قیمت پر سامان دے، نہ کہ اس میں چھپ کر اضافہ کرے۔

منافع لینا جائز کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر کاریگر پہلے ہی گاہک سے یہ بات کر لے کہ

"میں آپ کے لیے سامان لاؤں گا، لیکن اس پر اپنی محنت یا وقت کے حساب سے منافع لوں گا"، اور گاہک اس پر راضی ہو جائے،

تو یہ صورت شرعاً جائز ہے۔ کیونکہ یہ ایک باہمی رضا مندی کا معاملہ ہوگا۔

📜 اسلام ہر معاملے میں دیانت داری اور شفافیت کی تعلیم دیتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب