دوسرے کی طرف سے قربانی کرنا – ایک فقہی وضاحت
قربانی
دینِ اسلام کا ایک اہم شعائر ہے، جو ہر صاحبِ نصاب، مقیم، بالغ اور عاقل مسلمان پر
واجب ہوتی ہے۔ بعض اوقات لوگ اپنے رشتہ داروں یا بزرگوں کی طرف سے قربانی کرنا
چاہتے ہیں۔ ایسے موقع پر ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ
کیا
کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے؟
فقہی
اصول
اگر
کوئی شخص کسی اور کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو
اگر
وہ شخص بالغ ہے اور قربانی اس پر واجب ہے، تو اس کی اجازت لینا ضروری ہے۔
اگر
اجازت کے بغیر قربانی کی گئی، تو وہ قربانی اس کی طرف سے شمار نہیں ہوگی۔
اگر
وہ بچے (صغیر) ہیں، تو ان کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے، کیونکہ وہ خود شرعاً
مکلف نہیں ہیں۔
نفلی
قربانی کی اجازت
اگر
کسی پر قربانی واجب نہیں، اور محض ثواب کے حصول کے لیے وہ کسی دوسرے کی طرف سے
قربانی کرتا ہے (مثلاً والدین، دادا دادی، وغیرہ)، تو ایسی نفلی قربانی کے لیے
اجازت شرط نہیں ہے۔
فقہی حوالہ
الفتاویٰ الہندیہ (5 / 302) میں ہے
"ولو ضحى ببدنة عن
نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا في ظاهر الرواية، وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية:
إن كان أولاده صغاراً جاز عنه وعنهم جميعاً في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما
الله تعالى -، وإن كانوا كباراً إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي
يوسف رحمهما الله تعالى، وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لا تجوز عنه ولا
عنهم في قولهم جميعاً؛ لأن نصيب من لم يأمر صار لحماً فصار الكل لحماً"
یعنی
اگر
کسی شخص نے اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے قربانی کی، تو یہ عمل ظاہر الرواية
کے مطابق جائز نہیں۔ حسن بن زیاد کے مطابق اگر بچے صغیر ہوں تو ان کی طرف سے قربانی
جائز ہے۔ لیکن اگر وہ بالغ ہوں، تو صرف اس صورت میں قربانی جائز ہے جب ان کی اجازت
سے کی جائے۔ اگر بغیر اجازت قربانی کی گئی تو وہ قربانی نہ اس کی طرف سے ہوگی، نہ
ان کی طرف سے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں