سوال
اگر
کوئی شخص کسی دوسرے کا سلام لے کر آئے تو جواب دینے کا مسنون طریقہ کیا ہے
جواب
اگر
کوئی شخص کسی کا سلام لے کر آئے تو جواب دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سلام لانے
والے کو بھی جواب میں شامل کیا جائے۔ اس طرح جواب دیا جائے
عَلَیْکَ
وَعَلَیْہِ السَّلَامُ
اگر
"وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ" کا اضافہ کر دیا جائے تو بہتر ہے۔
سوال
اگر
سلام لانے والی یا سلام بھیجنے والی خاتون ہو تو جواب کا صیغہ کیا ہوگا؟
جواب
اگر
سلام لانے والی کوئی محرم خاتون ہو تو جواب میں "عَلَیْکِ" کہا جائے۔
اور
اگر سلام بھیجنے والی کوئی محرم خاتون ہو تو "عَلَیْہِ" کی جگہ
"عَلَیْہَا" کہا جائے۔
سوال
کیا
جواب میں "واو" (وَ) کا اضافہ کرنا درست ہے؟
جواب
جی
ہاں، اگر جواب کے شروع میں "وَ" کا اضافہ کر دیا جائے، جیسا کہ عام سلام
کے جواب میں ہوتا ہے، تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں۔
سوال
اس
مسئلے کی فقہی و حدیثی بنیاد کیا ہے؟
جواب
یہ
مسئلہ حدیث و فقہ دونوں سے ثابت ہے
حدیث شریف
عن غالب قال: إنا لجلوس بباب الحسن البصري
إذ جاء رجل، فقال: حدثني أبي عن جدي، قال: بعثني أبي إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم، فقال: ائتہ فأقرئہ السلام، قال: فأتیتہ، فقلت: أبي یقرئک السلام، فقال:”علیک
وعلی أبیک السلام“
ـــــــــ رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح،
کتاب الآداب، باب السلام، الفصل الثاني، ص: ۳۹۹)
فقہی
حوالہ
الفتاویٰ
الہندیہ میں ہے
"من بلغ إنساناً
سلاماً عن غائب کان علیہ أن یرد الجواب علی المبلغ أولاً ثم علی الغائب"
ـــــــــ (الفتاوی الھندیة، ۵: ۳۲۶)
الغیاثیہ
اور الذخیرة میں بھی یہی مضمون موجود ہے۔
مزید
تفصیل کے لیے دیکھیے
رد
المحتار (۹: ۵۹۵)
واللہ
تعالیٰ أعلم بالصواب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں