الجواب
محترم واضح رہے کہ اس صورت میں سجدہ سہو کے بعد تشہد میں بیٹھے ہوئے امام کی جس شخص نے اقتدا کی، تو امام کے سہو کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو کرنا لازم نہیں ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ خود اس مقتدی سے تو کوئی بھول واقع نہیں ہوئی اور امام کی پیروی کی رُو سے بھی سجدہ سہو لازم نہیں ہوا کہ اس نے امام کو دونوں سجدوں میں نہیں پایا اور امام کی پیروی اسی چیز میں لازم ہوتی ہے، جس میں اسے پالیا جائے، یہی وجہ ہے کہ امام کے سہو کا دوسرا سجدہ کرتے وقت جو شخص اقتدا میں شامل ہو، اس کےلیے حکم یہ ہے کہ وہ دوسرا سجدہ تو ادا کرے گا، مگر پہلے سجدے کی قضا اس کے ذمے لازم نہیں ہے۔
مبسوط سرخسی میں ہے:
فإقن سها الإمام في صلاته فسجد للسهو ثم اقتدى به رجل في القعدة التي بعدها صح اقتداؤه، وليس على الرجل سجود السهو فيما يقضي؛ لأنه ما سها، وإنما يلزمه متابعة الإمام فيما أدرك الإمام فيه وهو لم يدركه في هاتين السجدتين فلا تلزمه بحكم المتابعة
(مبسوط سرخسی، الجزء الثاني، ص123، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)
رد المحتار میں ہے:
إذا سجد الإمام واحدة ثم اقتدى به. قال في البحر: فإنه يتابعه في الأخرى ولا يقضي قضاء الأولى كما لا يقضيهما لو اقتدى به بعدما سجدهما
(رد المحتار، جلد 02، صفحہ 659، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں سجدہ سہو کے بیان میں ہے:
امام کے ایک سجدہ کرنے کے بعد شریک ہوا، تو دوسرا سجدہ امام کے ساتھ کرے اور پہلے کی قضا نہیں، اور اگر دونوں سجدوں کے بعد شریک ہوا، تو امام کے سہو کا اس کے ذمہ کوئی سجدہ نہیں۔
(بہار شریعت، جلد 01، صفحہ 716، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
واللہ اعلم
محمد ابوعبیدہ