منگل، 13 مئی، 2025

سوال: اگر حاملہ عورت کا حمل ضائع ہو جائے تو اس کے بعد آنے والے خون کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ خون نفاس کے حکم میں ہوگا یا نہیں؟ اور اگر نفاس نہ ہو تو پھر وہ خون حیض کہلائے گا یا استحاضہ؟ تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔

 سوال: اگر حاملہ عورت کا حمل ضائع ہو جائے تو اس کے بعد آنے والے خون کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ خون نفاس کے حکم میں ہوگا یا نہیں؟ اور اگر نفاس نہ ہو تو پھر وہ خون حیض کہلائے گا یا استحاضہ؟ تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ حاملہ عورت کا حمل ضایع ہونے کی صورت میں حكم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر، انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا ، بچے کے اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے ضایع ہوجائے تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا،اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر کم از کم تین دن تک خون آیا اور اس سے پہلے ایک کامل طہر بھی گزر چکا ہو تو یہ حیض کا خون شمار ہوگا ، لیکن اگر حمل ضائع ہونے کے بعد تین دن سے کم خون آیا تو یہ خون حیض بھی شمار نہیں ہوگا بلکہ استحاضہ ہوگا۔

سوال: اسقاط حمل کے بعد آنے والے خون کی شرعی حیثیت کے لحاظ سے مختلف صورتوں میں عورت کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

سوال کی روشنی میں حیض اور نفاس کے خون کا حکم

۔ صورتِ مسئولہ میں اسقاطِ حمل کے فوراً بعد آنے والے زیادہ خون کے بعد جو تھوڑا تھوڑا خون آتا ہے، اگر یہ نفاس اور حیض کا خون ہو تو یہ ناپاک خون ہے، اس کے دھبے بھی ناپاک ہیں۔

۔نفاس اور حیض کے خون کے ذرہ سے دھبے لگ جانے کی وجہ عورت ناپاک ہوجاتی ہے، البتہ غسل اُس وقت لازم ہوتا ہے جب نفاس اور حیض کے ایام پورے ہوجائیں۔

۔ نفاس اور حیض کے خون کے دنوں میں عورت نماز اور روزہ ادا نہیں کرے گی، البتہ بعد میں روزوں کی قضاء کرےگی، نمازوں کی قضاء نہیں کرے گی۔

استحاضہ یعنی بیماری کا خون اگر حیض اور نفاس کے بعد آتا ہے تو اس صورت میں عورت پر لازم ہے کہ وہ نفاس یا حیض سے پاک ہونے کا ایک غسل کرلے ،غسل کے بعد استحاضہ کے ایام کی ہر نماز کے وقت کے لیے استنجا کرنے کے بعد وضو کرلے اور نمازوں کی ادائیگی کرے،اسی طرح استحاضہ کے دوران عورت روزہ بھی رکھے گی، لیکن اگر عورت اس سے پہلے حیض یا نفاس کی حالت میں نہیں تھی ، تو اس صورت میں عورت پر غسل لازم نہیں ہے، بلکہ استحاضہ کے ایام کی ہر نماز کے وقت کے لیے استنجا کرنے کے بعد وضو کرلے اور نمازوں کی ادائیگی کرے،اسی طرح استحاضہ کے دوران اس پر لازم ہے کہ روزہ بھی رکھے۔

دلائل

فتاویٰ شامی

"(‌والسقط ‌الذي ‌استبان بعض خلقه ولد)."

"(قوله ‌والسقط ‌الذي ‌استبان بعض خلقه) كأصبع أو ظفر (ولد) فلو لم يستبن منه شيء لم يكن ولدا فإن أمكن جعله حيضا بأن امتد جعل إياه وإلا فاستحاضة."

(كتاب الطهارات، باب الحيض والاستحاضة، فصل في النفاس، ج:1، ص:187، ط: سعيد)

"‌ظهر ‌بعض ‌خلقه ‌كيد ‌أو ‌رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة، ولو لم يدر حاله ولا عدد أيام حملها ودام الدم تدع الصلاة أيام حيضها بيقين ثم تغتسل ثم تصلي كمعذور."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:302، ط: سعيد)

 

"أما ‌المعتادة ‌فما ‌زاد على عادتها ويجاوز العشرة في الحيض والأربعين في النفاس يكون استحاضة."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:285، ط: سعيد)

 

"(ودم استحاضة) حكمه (كرعاف دائم) وقتا كاملا (لا يمنع صوما وصلاة) ولو نفلا (وجماعا) لحديث توضئي وصلي وإن قطر الدم على الحصير."

"(قوله لا يمنع صوما إلخ) أي ولا قراءة ومس مصحف ودخول مسجد وكذا لا تمنع عن الطواف إذا أمنت من اللوث قهستاني عن الخزانة."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:298، ط: سعيد)

 

فتاویٰ ہندیہ

 

"الفصل الأول في الحيض) وهو دم من الرحم لا لولادة. كذا في فتح القدير .... (ومنها) النصاب أقل الحيض ثلاثة أيام وثلاث ليال في ظاهر الرواية. هكذا في التبيين وأكثره عشرة أيام ولياليها. كذا في الخلاصة."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الأول في الحيض، ج:1، ص:36، ط:رشيدية)

 

"(الأحكام التي يشترك فيها الحيض والنفاس ثمانية) (منها) أن يسقط عن الحائض والنفساء الصلاة فلا تقضي. هكذا في الكفاية إذا رأت المرأة الدم تترك الصلاة من أول ما رأت قال الفقيه وبه نأخذ. كذا في التتارخانية ناقلا عن النوازل وهو الصحيح. كذا في التبيين. إذا حاضت في الوقت أو نفست سقط فرضه بقي من الوقت ما يمكن أن تصلي فيه أو لا. هكذا في الذخيرة .... (ومنها) أن يحرم عليهما الصوم فتقضيانه هكذا في الكفاية إذا شرعت في صوم النفل ثم حاضت يلزمها القضاء احتياطا. هكذا في الظهيرية."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع في أحكام الحيض، ج:1، ص:38، ط: رشيدیہ)

 

فقط واللہ اعلم بالصواب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں