سوال: کیا پاکستان میں بینک کی نوکری
(چاہے وہ روایتی ہو یا مروجہ اسلامی بینک) حلال ہے یا حرام؟ واضح اور دو ٹوک جواب
مطلوب ہے، کیونکہ بعض افراد (جو دین کے پابند بھی ہیں) کئی سالوں سے بینک میں کام
کر رہے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی اسی میں لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ بینک
کا نظام سودی ہے، لیکن ہم تو صرف ملازمت کرتے ہیں، سود نہیں لیتے، لہٰذا ہماری
نوکری جائز ہے۔ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: جب تک بینک کا نظام سود پر چلتا
ہے، اس میں ملازمت کرنا شرعاً حرام ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ "ہم تو صرف ملازم
ہیں، خود سود نہیں لیتے"، شرعاً جواز کا باعث نہیں بنتا۔
صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
"لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل
الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء"
(صحیح مسلم، کتاب المساقاة، باب لعن آكل
الربا ومؤكله، حدیث نمبر: 1598)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر
لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔
لہٰذا بینک کی ملازمت میں شامل افراد
اگرچہ خود براہ راست سود نہ بھی لے رہے ہوں، تب بھی چونکہ وہ سودی نظام کو چلانے میں
اعانت کر رہے ہیں، حدیث کی روشنی میں وہ بھی اس گناہ میں شریک ہیں۔
علاوہ ازیں، بینک کے ملازمین کو دی
جانے والی تنخواہیں عموماً سودی آمدنی سے ہوتی ہیں، جو مالِ حرام ہے۔ اس لیے ایسے
مال سے تنخواہ لینا بھی شرعاً جائز نہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بدکاری کا
اڈہ چلا رہا ہو اور وہاں کچھ ملازمین کو تنخواہ دے رہا ہو، تو کیا ان ملازمین کی
نوکری اور تنخواہ شرعاً جائز اور پاکیزہ تصور کی جائے گی؟ ہرگز نہیں۔
لہٰذا جو افراد بینک میں ملازم ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ
اپنے پیشے کو گناہ سمجھتے ہوئے اللہ
تعالیٰ سے استغفار کریں،
جب تک کوئی حلال ذریعہ معاش نہیں ملتا،
توبہ و استغفار کے ساتھ کام کریں،
جیسے ہی کوئی جائز اور حلال ذریعۂ
آمدنی میسر ہو، فوراً سودی بینک کی ملازمت چھوڑ دیں۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں