کیا نمازجنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا لازم ہے؟
جواب
واضح رہے کہ
جو لوگ "سورہ فاتحہ" کو ہر نماز میں پڑھنا ضروری سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک
نماز جنازہ میں بھی سورہ فاتحہ پڑھنا لازمی ہے، ان کی دلیل بخاری شریف کی روایت
ہے۔
باقی جو لوگ
مقلدین ہیں، یعنی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کو فالو کرتے ہیں اور ان کی
تحقیقات پر اعتماد کرتے ہیں، ان کے ہاں نماز جنازہ میں کوئی مخصوص دعا خاص نہیں
ہے، کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں۔ چنانچہ روایت میں موجود ہے:
عن أبي سلمة
قال: سمعتُ الشعبي يقول في الصلاة على الميت: ليس فيه شيء مؤقت.
(المصنف
لابن أبي شيبة، من قال: ليس على الميت دعاء مؤقت: 11492)
یعنی نماز
جنازہ میں کوئی خاص متعین دعا مقرر نہیں ہے۔ حدیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ وغیرہ سے بھی اس طرح کے الفاظ ثابت ہیں۔ یہ جو ہم خاص دعائیں نماز جنازہ میں
پڑھتے ہیں، یہ عوام کی سہولت کے لیے اہل علم نے چند دعائیں یاد کرائی ہیں تاکہ
عوام آسانی سے پڑھ سکیں۔
مطلب یہ کہ
احناف کے نزدیک نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ سمیت کوئی بھی دعا خاص متعین اور مقرر
نہیں ہے، کیونکہ نماز جنازہ مکمل دعا ہے، میت کی مغفرت کے لیے پڑھی جاتی ہے، تو حدیث
پاک سے ثابت کوئی بھی دعا نماز جنازہ میں پڑھ سکتے ہیں۔
باقی بخاری شریف
کی مذکورہ بالا حدیث میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت
ہے، لیکن
اس حدیث کا
ترجمہ بعض نے غلط انداز میں کیا ہے کہ "ذرا پکار کر معلوم ہونا چاہیے کہ یہ
طریقہ نبوی ہے" — یہ الفاظ اپنی طرف سے ڈالے گئے ہیں۔
اصل حدیث کے
مطابق، طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رض کے پیچھے
نماز جنازہ پڑھی، تو انہوں نے سورہ فاتحہ کے ساتھ قراءت کی اور فرمایا تاکہ لوگ
جان لیں کہ یہ بھی ایک طریقہ (سنت) ہے۔
سنت کے مختلف
معانی ہیں، مثلاً: طریقہ، راستہ وغیرہ۔ قرآن اور حدیث میں اللہ تعالیٰ اور رسول
اللہ ﷺ کے طریقوں کو بھی سنت کہا گیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض
صحابہ کرام دین کے کسی مسئلے میں اجتہاد کرتے تو اس کو بھی سنت کہہ دیتے تھے،
لہٰذا یہاں بخاری کی روایت میں "سنت" کا مطلب سنت نبوی قرار دینا محلِ
نظر ہے۔
کیونکہ اس روایت
میں یہ بھی موجود ہے کہ جنازے میں شریک لوگوں نے عبداللہ بن عباس رض پر اعتراض کیا،
مطلب یہ کہ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ اور دوسرے بڑے صحابہ سے یہ عمل ثابت نہیں تھا۔
اس پر ابن عباس رض نے فرمایا کہ یہ سنت ہے، یعنی بقول امام شافعی رحمہ اللہ، یہ ان
کا اپنا اجتہاد اور طریقہ تھا، سنتِ رسول اللہ ﷺ نہیں۔ امام مالک، امام اعظم ابو
حنیفہ اور دوسرے فقہاء بھی یہی فرماتے ہیں کہ اگر کسی صحابی نے سورہ فاتحہ جنازہ میں
پڑھی تو وہ بطورِ قراءت نہیں بلکہ بطورِ دعا پڑھی ہوگی۔
في التجريد: "قال ابن بطال في شرح البخاري وكان عمر
وابنه وعلي وأبو هريرة ينكرونه، وبه قال أبو حنيفة ومالك، وقال الطحاوي: من قرأها
من الصحابة يحتمل أن يكون على وجه الدعاء لا التلاوة."
(اعلاء
السنن، باب كيفية صلاة الجنازة: 8/211، إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)
بہرحال، احناف
کے نزدیک سورہ فاتحہ اور دوسری کوئی بھی دعا نماز جنازہ میں خاص نہیں ہے، بطورِ
دعا سورہ فاتحہ یا کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں۔ تمام صحیح احادیث اور خیرالقرون و
فقہاء کرام کی تصریحات سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ جمہور کے طریقے پر عمل کرنے سے گروہ
بندی، تعصب اور انتشار سے بچا جا سکتا ہے، لہٰذا جمہور کے ہاں سورہ فاتحہ نماز
جنازہ میں نہیں پڑھی جاتی، اس کو لازم نہ کیا جائے تاکہ امتِ مسلمہ میں تفرقہ بازی
اور تعصب سے بچا جا سکے۔
اللہ تعالیٰ
ہم سب کو سنتِ مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دینِ اسلام کی صحیح
سمجھ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
واللہ اعلم
بالصواب
مفتی محمد شریف
چترالی
عفی عنہ