جواب
’’سید‘‘ کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر
،حضرت عباس اورحضرت عقیل اورحضرت حارث
رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اولاد
میں سے ہیں، ان سب پر صدقہ حرام ہے۔
اور
اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات اور نبی
کریم ﷺ کی آل و اولاد اور داماد یعنی حضرت
علی کرم اللہ وجہہ شامل ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ
’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ بعض آئمہ تفسیر نے اہلِ بیت سے مراد صرف ازواجِ مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ
و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل
کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات کو قرار دیا۔ اور
استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی،(آیت) {واذکرن مایتلی في بیوتکن}
(رواه ابن أبي حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساءالنبی کے الفاظ سے خطاب بھی اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی
کرتے تھے، کہ آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت اِن ہی
کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار
ہوں ۔
لیکن
حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاہد ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور
حضرت حسن وحسین بھی شامل ہیں، جیسے ’’صحیح
مسلم‘‘ کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے
کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور
اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آ گئے تو ان کو اس چادر
میں لے لیا، پھر حسین آ گئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد
حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ
آیت تلاوت فرمائی (آیت) {انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا}. اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے
بعد فرمایا: "اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي".
(رواہ ابن جریر)
ابن
کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیثِ معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان
دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں، جن لوگوں نے یہ کہا
ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں یہ
اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں‘‘۔ (معارف القرآن)
اور
آلِ رسول کے مصداق میں متعدد اقوال ہیں، بعض محقیقن نے اس سے آپ ﷺ کی اولاد مراد لی
ہے، اور اکثر نے قرابت دار مراد لیے ہیں
جن پر صدقہ حرام ہے، اور بعض نے مجازاً اسے تمام امتِ مسلمہ مراد لی ہے۔
"(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم
في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم
الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره
الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن
الثاني مختار المحققين".
فقط واللہ اعلم