سوال
الجواب۔۔۔!!
واضح
رہے کہ خلع بھی دیگر عام مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دوسرے
مالی معاملات میں فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع میں بھی دونوں فریقوں
(شوہر اور بیوی) کی رضامندی ضروری ہے۔
کسی
ایک فریق کی رضامندی کے بغیر خلع شرعًا معتبر نہیں۔ اور عمومی حالات میں شوہر کی
اجازت اور وکالت کے بغیر کسی اور کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔
لہٰذا
صورتِ مسئولہ میں جب لڑکی کا نکاح اس لڑکے سے ہوچکا، اور بعد میں جھگڑے کی بنا پر
لڑکی والوں نے عدالت میں خلع کا دعویٰ دائر کیا، اور لڑکے نے عدالت کے فیصلے کو نہ
تحریری طور پر قبول کیا اور نہ زبانی طور پر، تو ایسی صورت میں
عدالت
کی طرف سے دی گئی خلع شرعًا معتبر نہیں ہے۔
اس
لیے
دونوں
کا نکاح بدستور قائم ہے،
اور
لڑکی کسی اور مرد سے نکاح نہیں کرسکتی۔
واللہ
اعلم باالصواب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں