(2)
اس
کے بعد موصوف نے قتل خوانی کی محفل میں خطاب کیا تو اس میں موصوف نے کچھ چیزیں بیان
کیں جو کہ فقیر کی تحقیق کے مطابق من گھڑت ہیں ایک تو یہ روایت پڑھی لحمک لحمی
جسمک جی ایک دمی اس کے بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں۔
(3)
اس
کے بعد موصوف نے قتل لا استلم اس آیت کی تفسیر میں کہ یہاں سے صرف پانچ ہستیوں سے
مودت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں؟
الجواب
۔۔۔
1...واضح رہے کہ ھر انسان جب بھی بات کرتا ہے تو وہ اپنی سوچ ،اپنے
نظرے اور اپنے عقیدے کے مطابق بات کرتا ہے ،
لہذا
مذکورہ شخص نے ایصال ثواب میں 14معصومین کا ذکر کیا ، تو ایصال ثواب تو ھم سنی اھل
والجماعت کے ھاں بھی جائز ھے ، لیکن چودہ معصومین کہنا ، یہ شیعوں کا عقیدہ اور
نظریہ ھے ، چنانچہ ملاحظہ فرمائیں ،
چودہ
معصومین شیعوں کے یہاں رائج ایک عنوان ہے جسے وہ پیغمبر اکرمؐ، حضرت فاطمہ(س) اور
اپنے بارہ اماموں پر اطلاق کرتے ہیں جو ان کے مطابق معصوم اور ہر قسم کے گناہ اور
غلطی سے مبرا ہیں۔ ان کا یہ اعتقاد آیت تطہیر، آیت اولو الامر، حدیث ثقلین اور دیگر
کئی آیات اور روایات سے مستدل ہیں۔۔۔!!
بہرحال
یہ مذکورہ شخص شیعہ یا شیعوں سے متاثر شخص ھوگا ،
یہ
مجلس کرانے والے اگر سنی اھل سنت والجماعت مسلک سے تعلق رکھتے ھیں ،تو ان کو چاھئے
تھا کہ اس طرح کے بدعتی شخص کو مجلس میں نہ بلاتے ،جب بلا لیا تو وہ اپنے نظرے کے
مطابق دعا کرے گا اور بات کرکے گا،
اور
اس طرح کے شخص سے بحث کرنا بھی مناسب نہیں ہے ،
2..باقی لحمک لحمی والی روایت گھڑت ھے ، یہ شعیوں کے ھاں ویسے
مشہور ہے ،
3..باقی یہ قل لا اسالکم علیه صرف پانچ تن پاک کی مودت کی بات کی
ھے جوکہ غلط ھے،
طاؤس
کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے اس آیت «قل لا أسألكم عليه أجرا
إلا المودة في القربى» ”اے نبی! کہہ دو میں تم سے (اپنی دعوت و تبلیغ کا) کوئی اجر
نہیں مانگتا، ہاں چاہتا ہوں کہ قرابت داروں میں الفت و محبت پیدا ہو“ (الشوریٰ: ۲۳)، کے بارے میں پوچھا گیا،
اس پر سعید بن جبیر نے کہا: «قربیٰ» سے مراد آل محمد ہیں، ابن عباس نے کہا: (تم
نے رشتہ داری کی تشریح میں جلد بازی کی ہے) قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں تھی جس میں
آپ کی رشتہ داری نہ ہو، (آیت کا مفہوم ہے) اللہ نے کہا: میں تم سے کوئی اجر نہیں
چاہتا (بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ) ہمارے اور تمہارے درمیان جو رشتہ داری ہے اس کا
پاس و لحاظ رکھو اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو۔
امام
ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہما سے آئی ہے۔۔!!
واللہ
اعلم باالصواب
محمد
شریف چترالی
عفی
عنہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں