جمعہ، 2 مئی، 2025

کیا پہاڑی علاقوں میں قدرتی جنگلوں سے حاصل شدہ چلغوزے پر عشر اور زکوٰۃ لازم ہوتی ہے؟

 

کیاپہاڑی علاقوں میں قدرتی جنگلوں سے حاصل شدہ چلغوزے پر عشر اور زکوٰۃ لازم ہوتی ہے؟

 

جواب:

واضح رہے کہ پہاڑی علاقوں میں چلغوزے کے جو درخت 🌲 پائے جاتے ہیں، وہ قدرتی خود رو ہیں، اور وہ اکثر کسی انسان کی ملکیت میں بھی نہیں ہوتے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ہمارے علاقے میں جو چلغوزے کے درخت اور جنگل پایا جاتا ہے، وہ قدرتی طور پر خود رو ہیں، وہ کسی نے اگائے نہیں ہیں، اور وہ کسی کی ملکیت بھی نہیں ہیں، لہٰذا ان درختوں سے جو چلغوزے کے پھل اتارے جاتے ہیں، ان پر عشر لازم نہیں ہوتا، کیونکہ عشر لازم ہونے کے لیے باغ، جنگل اور زمین کا ملکیتی ہونا اور درختوں کا اگانا یا بونا شرط ہے۔

 

باقی چلغوزے کے پھل فروخت کرکے جو قیمت حاصل ہوگی، اگر وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور اس پر سال گزر جائے، تب زکوٰۃ واجب ہوگی، اس سے پہلے نہیں۔

اسی طرح اگر چلغوزے فروخت کرنے والا پہلے سے صاحبِ نصاب ہے (یعنی اس کے پاس نقدی، مالِ تجارت یا دیگر مالِ نصاب موجود ہے)، تو جب اس موجودہ 

نصاب کی زکوٰۃ ادا کرے گا تو اس چلغوزے کے پھل کی حاصل کی ہوئی قیمت و کمائی بھی اس نصاب کے ساتھ ملا کر ایک ساتھ زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔

کما فی الدر المختار

ویجب العشر فی ثمرۃ جبل او مفازۃ ان حماہ الامام لانہ مال مقصود لا ان لم یحمہ لانہ کالصید
(ہامش رد المحتار ۲:۶۶)

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے

"(سئل) في رجل له أشجار مثمرة في أرض عشرية فقطعها ويريد العشري أخذ عشرها فهل له ذلك؟ (الجواب) : لا عشر في نفس الأشجار المثمرة، كما في الزيلعي والبحر وغيرهما۔ (أقول:) وإنما العشر في نفس الثمر، وفي الأشجار المعدة للقطع، كما مر".

واللہ اعلم بالصواب

محمد شریف چترالی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں