ہفتہ، 3 مئی، 2025

سگریٹ اور تمباکو کا کاروبار – شرعی اور فقہی جائزہ

 

🖋 سگریٹ اور تمباکو کا کاروبار – شرعی اور فقہی جائزہ

آج کل بہت سے لوگ سگریٹ اور تمباکو کا کاروبار کر رہے ہیں اوریہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے؟

 اس بارے میں فقہائے کرام اور مفتیانِ عظام کے واضح فتاویٰ موجود ہیں۔

 کفایت المفتی میں ہے
"(سوال) میں نے ایک دکان فی الحال کھولی ہے جس میں متفرق اشیاء ہیں، ارادہ ہے کہ سگریٹ اور پینے کا تمباکو بھی رکھ لوں، یہ ناجائز تو نہیں ہوگا؟
(جواب
۱۶۳) سگریٹ اور تمباکو کی تجارت جائز ہے اور اس کا نفع استعمال میں لانا حلال ہے۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘۔"

 فتاویٰ محمودیہ۱۸؍۳۹۷) میں ہے:
"تمباکو کی کاشت بھی جائز ہے اور تجارت بھی جائز ہے، استعمال بھی جائز ہے، الا یہ کہ وہ نشہ آور ہو تب منع کیا جائے گا، مسجد میں جانے کے لیے منہ صاف کر کے اس کی بدبو کو زائل کرنے کا اہتمام کیا جائے۔"

📜 الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) (6/460):
"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف... قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه. (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين... فيفهم منه حكم النبات وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسلیم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه۔"

فقط واللہ اعلم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں