جواب
محترم
واضح رہے کہ(۱)قربانی
واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل،
بالغ، مقیم، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم اور
اس وقت تک واجب الادا اخراجات منہا کرنے کے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے
باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت و
استعمال سےزائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر
ہو، یا ان میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے
مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔
قربانی
واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں
ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب
ہونے سے پہلے جو مرد یا عورت صاحبِ نصاب بن جائے، اس پر قربانی واجب ہے۔
آج
کل (ذی القعدہ ۱۴۴۲
بمطابق جون ۲۰۲۱) ایک
تولہ چاندی سولہ سو چونتیس ( ۱۶۳۴)
روپے کی ہے ، اس اعتبار سے نصاب (ساڑھے
باون تولہ چاندی کی قیمت) پچاسی ہزار سات سو پچاسی (۸۵،۷۸۵) روپے بنتی ہے۔
(۲) حدیث شریف میں
آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے
قریب بھی نہ آئے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب مرد و عورت پر قربانی
کرنا واجب ہے اور صاحب نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
(۳) اگرقربانی کے ایام
گزرجائیں اورصاحبِ نصاب شخص نے قربانی ہی نہ کی تواب قربانی کی قضا یا کفارہ تو
واجب نہیں ہوگا، البتہ اس صورت میں ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ
کرنا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجه (2/ 1044)
"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا»"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)
"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)
(قوله: واليسار إلخ)
بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن
يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه
قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له
في أيامها نصاب تلزم." ( ٦ / ٣١٢ )
الفتاوى الهندية (1/ 191)
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 320)
’’ (ولو) (تركت التضحية
ومضت أيامها) (تصدق بها حية ناذر) فاعل تصدق (لمعينة) ولو فقيرا۔
قوله: ولو تركت
التضحية إلخ) شروع في بیان قضاء الأضحية إذا فاتت عن وقتها فإنها مضمونة بالقضاء
في الجملة، كما في البدائع.
قوله: ومضت أيامها
إلخ) قید به لما في النهایة: إذا وجبت بإیجابه صریحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعینها
في أیامها فعلیه مثلها مکانها، لأن الواجب علیه الإراقة وإنما ینتقل إلى الصدقة
إذا وقع الیأس عن التضحية بمضي أیامها، وإن لم یشتر مثلها حتى مضت أیامها تصدق بقیمتها،
لأن الإراقة إنما عرفت قربة في زمان مخصوص ولا تجزیه الصدقة الأولى عما یلزمه بعد
لأنها قبل سبب الوجوب اهـ (قوله: تصدق بها حیة) لوقوع الیأس عن التقرب بالإراقة،
وإن تصدق بقیمتها أجزأه أیضا لأن الواجب هنا التصدق بعینها وهذا مثله فیما هو
المقصود اهـ ذخيرة.‘‘
فقط واللہ اعلم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں