قران کہتا ہے جیسا مرد ہوگا ویسی عورت ملے گی لیکن فرعون کو اسیہ کیوں ملی
الجواب
۔۔۔!!!
واضح
رہے کہ فرعون کی بیوی آسیہ حالت کفر میں فرعون کی بیوی بنی تھی ،جب حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے نبوت کا اعلان کیا تو آسیہ رض حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی
۔۔۔جب ایمان لے آئی ،تو اس کے بعد فرعون کے پاس نہ رہ سکی ۔۔فرعون نے اس سے گرفتار
کیا ، سخت سزا دی ،اور آخر میں شہید کر دیا ، کفر کی حالت میں فرعون کے ساتھ رھی
،کفر حالت خباثت ھے، لیکن جب اسلام کی دولت سے اس کا دل و دماغ منور ہوگئے ، تو
پھر فرعون سے نفرت ھوگی۔۔۔! شہادت ان کی مقدر ٹھہری ۔۔۔!!
بہر
حال سورۃ النور کی آیت نمبر 26 کی وضاحت
درج ذیل ہے ،
اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ
وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ ۚ
وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ ۚ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا
يَقُوْلُوْنَ ۭلَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ"(النور:26)
ترجمہ:
"(اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ) گندی عورتیں گندے لوگوں کے لائق ہوتی ہیں اور
گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی
ہیں اور ستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق ہوتے ہیں یہ اس بات سے پاک ہیں جو یہ
(منافق) بکتے پھرتے ہیں ان (حضرات) کے لیے (آخرت میں) مغفرت اور عزت کی روزی (یعنی
جنت) ہے۔"(بیان القران)
اس
آیت میں کسی حکمِ شرعی کا بیان نہیں، بلکہ
ایک عام ضابطہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طبائع میں طبعی طور پر جوڑ رکھا
ہے،گندی اور بدکار عورتیں ،بدکار مردوں کی طرف،او ر گندے ،بدکار مرد،گندی،بدکار
عورتوں کی طرف رغبت کیاکرتے ہیں، اسی طرح پاک،صاف عورتوں کی رغبت،پاک ،صاف مردوں کی
طرف ہوتی ہے،اورپاک، صاف مردوں کی رغبت ،پاک، صاف عورتوں کی طرف ہوا کرتی ہے،اور
ہر ایک اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ تلاش کرتا ہےاور قدرۃً اس کو وہی مل جاتا ہے،
البتہ اس طرح اکثری طور پر ہوتا ہے، لہذا کہیں اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ
اس میں قطعی حکم نہیں بتلایا گیا ہے، بل کہ
ایک اغلبی اور اکثری عادت بتلائی گئی ہے ۔
مفتی
شفیع صاحب رحمۃاللہ علیہ معارف القران میں فرماتے ہیں:
"اس آخری آیت میں اول تو عام ضابطہ یہ بتلادیا گیاکہ اللہ تعالیٰ
نے طبائع میں طبعی طور پر جوڑ رکھا ہے،گندی اور بدکار عورتیں ،بدکار مردوں کی
طرف،او ر گندے، بدکار مرد،گندی،بدکار عورتوں کی طرف رغبت کیاکرتے ہیں،اسی طرح
پاک،صاف عورتوں کی رغبت،پاک ،صاف مردوں کی طرف ہوتی ہے،اورپاک، صاف مردوں کی رغبت
،پاک، صاف عورتوں کی طرف ہوا کرتی ہے،اور ہر ایک اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ تلاش
کرتا ہےاور قدرۃً اس کو وہی مل جاتا ہے۔"
(معارف القران، ج:6،
ص:383، ط: مکتبہ معارف القران)
2۔بعض
مفسرین فرماتے ہیں: کہ"خبیثات "اور "طیبات"،کلمات کی صفت ہے،یعنی
آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ بری اورفحش باتیں، بُرے لوگوں کے ہی لائق ہیں، اور
پاکیزہ اور بھلی باتیں، پاکیزہ اور نیک لوگوں کے ہی لائق ہیں۔
واللہ
اعلم باالصواب
مفتی
محمد شریف چترالی عفی عنہ