بدھ، 9 جولائی، 2025

اگر شوہر خلع کے لیے رضامند نہ ہو اور عدالت از خود خلع دے دے، تو کیا ایسی عدالتی خلع شرعی اعتبار سے درست ہوتی ہے؟ کیا ایسی صورت میں نکاح ختم ہو جاتا ہے اور عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے؟

 

سوال
اگر شوہر خلع کے لیے رضامند نہ ہو اور عدالت از خود خلع دے دے، تو کیا ایسی عدالتی خلع شرعی اعتبار سے درست ہوتی ہے؟ کیا ایسی صورت میں نکاح ختم ہو جاتا ہے اور عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے؟

الجواب۔۔۔!!

واضح رہےخلع بھی دیگر عام مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات میں جانبین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع میں بھی فریقین  کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، کسی ایک فریق کی رضامندی کے بغیر خلع شرعًا معتبر نہیں اور نہ ہی عمومی احوال میں شوہر کی اجازت اور وکالت کے بغیر کسی اور  کو طلاق دینے کا اختیار ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جب لڑکی کا نکاح اس لڑکے سے ہوا، اور پھر آپسی کے جھگڑے کی وجہ سے لڑکی والوں نے عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کیا،  اور لڑکے  نے  عدالتی خلع کے فیصلہ کو تحریری اور زبانی طور قبول نہیں کیا،    تو عدالت کی طرف سے دی گئی خلع شرعًا معتبر نہیں ہے، لہذا دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے، اور لڑکی کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی۔

واللہ اعلم باالصواب

محمد شریف فاروقی عفی عنہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں