اتوار، 15 جون، 2025

سوال حدیث شریف میں جس سرکہ کو "بہترین سالن" فرمایا گیا، وہ کون سا سرکہ ہے؟ کیا یہ وہی ہے جو آج کل بوتلوں میں (سیب یا انگور کا) بازار میں ملتا ہے؟ یا عرب میں کوئی اور مخصوص چیز مراد ہے؟

 

سوال

حدیث شریف میں جس سرکہ کو "بہترین سالن" فرمایا گیا، وہ کون سا سرکہ ہے؟ کیا یہ وہی ہے جو آج کل بوتلوں میں (سیب یا انگور کا) بازار میں ملتا ہے؟ یا عرب میں کوئی اور مخصوص چیز مراد ہے؟

جواب

حدیث شریف میں جس سرکہ کا ذکر آیا ہے، وہ مطلق ہے، یعنی عمومی انداز میں سرکہ کا ذکر فرمایا گیا ہے، کسی خاص قسم یا مخصوص اجزاء والے سرکہ کی تعیین نہیں کی گئی۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «نِعْمَ الإِدَامُ الْخَلُّ»
"سرکہ بہترین سالن ہے"۔
(صحیح مسلم: 2052)

 شرح
یہ حدیث مطلق سرکہ کے بارے میں ہے، اس سے مراد ہر وہ سرکہ ہے جو شرعاً پاک ہو اور حلال طریقے سے تیار کیا گیا ہو۔

موجودہ دور کے سرکہ کا حکم

آج کل مارکیٹ میں جو سیب (Apple Cider Vinegar)، انگور (Grapes Vinegar) یا دیگر پھلوں و اشیاء سے تیار کردہ سرکہ دستیاب ہوتا ہے، اگر وہ شرعی طور پر پاک ہو، یعنی

  • اس میں خمر (شراب) شامل نہ ہو
  • یا اگر شراب سے بنا ہو تو خود بخود (بغیر انسانی مداخلت کے) سرکہ میں تبدیل ہو گیا ہو

تو ایسا سرکہ بھی حلال اور جائز ہے، اور وہی حدیث کے تحت داخل ہے۔

فقہی حوالہ

 فتاویٰ عالمگیری میں ہے

"وَالْخَمْرُ إذَا تَخَلَّلَ بِنَفْسِهِ... يَحِلُّ عِنْدَنَا الْكُلُّ"
یعنی: شراب اگر خود بخود سرکہ بن جائے، یا علاج سے سرکہ بنایا جائے تو وہ ہمارے نزدیک حلال ہے۔
(کتاب الأشربة، ج:5، ص:410)

 بدائع الصنائع میں ہے

"إذا تخللت بنفسها يحل شرب الخل بلا خلاف؛ لقوله: نعم الإدام الخل"
یعنی: اگر شراب خود بخود سرکہ میں بدل جائے تو اس کا استعمال جائز ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "سرکہ بہترین سالن ہے"۔
(بدائع الصنائع، ج:5، ص:113)

فقط والله أعلم بالصواب

سوال قربانی کے جانور کی رسی (یا گلے میں پڑا ہار) کا کیا حکم ہے؟ کیا اسے صدقہ کرنا ضروری ہے؟

 

سوال

قربانی کے جانور کی رسی (یا گلے میں پڑا ہار) کا کیا حکم ہے؟ کیا اسے صدقہ کرنا ضروری ہے؟

 

الجواب۔۔۔!!

قربانی کے جانور کی رسی یا گلے کا ہار صدقہ کرنا مستحب (افضل) ہے، واجب نہیں۔

البتہ اگر اسے فروخت کر دیا جائے تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

 

 دلائل از کتبِ فقہ

الفتاویٰ الہندیہ میں ہے

"وإذا ذبحها تصدق بجلالها و قلائدها."

یعنی: جب جانور ذبح کیا جائے تو اس کے گلے کا ہار اور اس کا سامان (چادر، رسی وغیرہ) صدقہ کر دیا جائے۔

 (الفتاویٰ الہندیہ، جلد 5، ص 300، ط: رشیدیہ)

 

2 بدائع الصنائع میں ہے:

"يتصدق بثمنه؛ لأن القربة ذهبت عنه فيتصدق به."

یعنی: اگر وہ سامان بیچ دیا جائے تو اس کی قیمت صدقہ کی جائے، کیونکہ جب قربانی مکمل ہو گئی تو اب اس میں عبادت باقی نہ رہی، اس لیے اس کی قیمت صدقہ کی جائے گی۔

📘 (بدائع الصنائع، جلد 5، ص 81)

 

سوال اگر قربانی کے بکرے کے دونوں سینگ کا اوپری حصہ ٹوٹ گیا ہو یا اُن کا خول اتر گیا ہو، تو کیا اس کی قربانی جائز ہے؟

 سوال

اگر قربانی کے بکرے کے دونوں سینگ کا اوپری حصہ ٹوٹ گیا ہو یا اُن کا خول اتر گیا ہو، تو کیا اس کی قربانی جائز ہے؟

 

جواب

اگر قربانی کے جانور (مثلاً بکرے) کے سینگ کا صرف اوپری حصہ ٹوٹ گیا ہو یا خول اتر گیا ہو، اور زخم یا دماغ کو نقصان نہ پہنچا ہو، تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔

 

قربانی کے جانور میں سینگ کا ہونا کوئی شرط نہیں، لہٰذا

 

اگر سینگ پیدائشی نہ ہوں (جمّاء)،

 

یا سینگ کسی حد تک ٹوٹ گئے ہوں،

 

یا خول اتر گیا ہو اور زخم نہ ہو،

 

تو قربانی ہو جائے گی۔

 

البتہ اگر سینگ جڑ سے ٹوٹ جائے اور اس کا اثر دماغ تک پہنچ جائے تو یہ عیبِ مانع شمار ہوگا، اور ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی۔

 

دلائل از کتبِ فقہ

فتاویٰ شامی میں ہے

"ویُضَحّٰی بِالجَمّاءِ: ہِيَ الّتِي لَا قَرنَ لَھَا خِلقَةً، وکذَا العَظمَاء الّتِي ذَھَبَ بَعضُ قَرنِھَا بِالکَسرِ أَو غَیرِہ، فَإِن بَلَغَ الکَسرُ إِلَی المُخِّ لَم یَجُزْ."

(فتاویٰ شامی، کتاب الأضحیہ، جلد ۹، صفحہ ۴۶۷، ط: مکتبہ زکریا، دیوبند)

 

الفتاویٰ الہندیۃ میں ہے

"ویُضَحّٰی بِالجَمّاءِ التی لا قَرنَ لَھَا، وَکَذَا مَکسُورَةِ القَرنِ ... إِن بَلَغَ الکَسرُ المُشَاشَ لَا یُجزِی، وَالمُشَاشُ رُؤوسُ العِظَامِ مِثل الرُّکبَتَینِ وَالمِرفَقَینِ."

(الفتاوی الہندیہ، جلد ۵، صفحہ ۲۹۷، ط: بولاق، مصر)

 

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے

"ویُضَحّٰی بِالجَمّاءِ: وَہِيَ الّتِي لَا قَرنَ لَھَا؛ لِأَنَّ القَرنَ لَا یَتَعَلَّقُ بِہِ مَقصُودٌ، وَکَذَا مَکسُورَةُ القَرنِ؛ بَل ہِيَ أَولٰی."

(حاشیہ الطحطاوی، جلد ۴، صفحہ ۱۶۴، ط: مکتبہ الاتحاد، دیوبند)

 

 

 واللہ اعلم بالصواب

مفتی محمد شریف فاروقی عفی عنہ

عید کی راتوں کی عبادت کی فضیلت (احادیثِ مبارکہ اور علماء کے اقوال کی روشنی میں) عید الفطر اور عید الاضحی کی راتیں اسلام میں روحانیت اور عبادت کے لیے خاص مقام رکھتی ہیں۔

 

عید کی راتوں کی عبادت کی فضیلت

(احادیثِ مبارکہ اور علماء کے اقوال کی روشنی میں)

عید الفطر اور عید الاضحی کی راتیں اسلام میں روحانیت اور عبادت کے لیے خاص مقام رکھتی ہیں۔ یہ راتیں اللہ تعالیٰ کے شکر اور قرب کے حصول کا ذریعہ ہیں۔

 

احادیثِ مبارکہ

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

"جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لیے کھڑا ہوا، اُس کے لیے جنت واجب ہو گئی

ترویہ کی رات، عرفہ کی رات، عید الفطر کی رات، عید الاضحی کی رات، اور شعبان کی پندرھویں رات۔"

(ابن عساکر، شعب الایمان)

 

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

"جو شخص عید کی رات اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عبادت میں گزارے،

قیامت کے دن جب تمام دل مردہ ہوں گے،

اُس کا دل زندہ رہے گا۔"

(ابن ماجہ، بیہقی)

 

 علماءِ کرام کے اقوال

 امام شافعیؒ فرماتے ہیں

 

"عید کی رات کو عبادت میں مشغول رہنا مستحب ہے، خاص طور پر نماز، تلاوت، تسبیحات اور دعا کے ذریعے۔"

 

 امام غزالیؒ نے ان راتوں کو ان خاص فضیلت والی راتوں میں شامل کیا ہے جنہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

 

 عبادت کے افضل طریقے

عشاء اور فجر کی نماز باجماعت ادا کرنا

 

نفل نماز خصوصاً تہجد

 

قرآن کریم کی تلاوت

 

ذکر، تسبیح، درود شریف

 

استغفار، ندامت اور دعاؤں میں وقت گزارنا

 

 مقصدِ عبادت

یہ راتیں

 

اللہ کے شکر کا اظہار

 

روحانی ترقی

 

نیکیوں کے ذخیرے جمع کرنے

 

اور قربِ الٰہی حاصل کرنے کا موقع ہیں۔

 

 اختتامیہ دعا

اَللّٰهُمَّ اجعلنا من عبادکَ الصالحین، ووفّقنا لإحياءِ هذهِ الليالي المباركة بالذكر والطاعة، آمین يا رب العالمين۔

جنازہ کو غسل دینے کے بعد غسل دینے والے پر غسل کرنا کیسا ہے؟

جنازہ کو غسل دینے کے بعد غسل دینے والے پر غسل کرنا کیسا ہے؟

 

جواب

 میت کو غسل دینے والے کے لیے میت کو غسل دینے کے بعد  خود بھی غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ غسل کرنا مستحب ہے۔ اور اسی طرح بہتر ہے کہ کپڑے بھی تبدیل کرلے، تاہم اگر کپڑوں میں کوئی نجاست نہ ہو تو کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔

 

فتاویٰ شامی میں ہے

 

"(وندب لمجنون أفاق) ... ولمن لبس ثوباً جديداً أو غسل ميتاً.

 

 (قوله: أو غسل ميتاً) للخروج من الخلاف كما في الفتح".

 

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ،كتاب الطهارة،سنن الغسل،1/ 169،ط: سعيد)

 

 فقط واللہ اعلم


سوال اگر ایک شخص نے پوری قربانی کی رقم ادا کی، اور قربانی مکمل نفل تھی، یا ایک حصہ واجب اور باقی نفل، تو کیا باقی افراد کو ثواب میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا گوشت کی تقسیم میں سب برابر شریک ہو سکتے ہیں؟

 

سوال

اگر ایک شخص نے پوری قربانی کی رقم ادا کی، اور قربانی مکمل نفل تھی، یا ایک حصہ واجب اور باقی نفل، تو کیا باقی افراد کو ثواب میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا گوشت کی تقسیم میں سب برابر شریک ہو سکتے ہیں؟

 

 الجواب۔۔۔!!

اگر رقم ایک ہی بندے نے ادا کی ہو، اور قربانی بھی مکمل نفل قربانی ہو، یا ایک حصہ واجب قربانی کا ہو اور باقی چھ حصے نفل قربانی کے ہوں، تو ایسی صورت میں

 باقی چھ افراد کو ثواب میں شامل کیا جا سکتا ہے

 گوشت ان تمام افراد میں برابر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

 

 واللہ اعلم بالصواب

 

محمد شریف فاروقی عفی عنہ

سوال قیامت کے دن قربانی کا جانور پل صراط پر سواری کا کام دے گا، سواری کیلئے ایک جانور کافی ہوتا ہے، ایک بندہ سالانہ جانور قربانی کرتا ہے، تو ایک جانور سواری کیلئے کام آیا، باقی جانور کہاں جائیں گے۔۔۔؟

 

سوال

قیامت کے دن قربانی کا جانور پل صراط پر سواری کا کام دے گا، سواری کیلئے ایک جانور کافی ہوتا ہے، ایک بندہ سالانہ جانور قربانی کرتا ہے، تو ایک جانور سواری کیلئے کام آیا، باقی جانور کہاں جائیں گے۔۔۔؟

 

 الجواب۔۔۔!!!

واضح رہے کہ قربانی ایک عظیم عبادت ہے۔ قیامت کے دن انسان کو مختلف قسم کی پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا ہوگا۔ وہاں پر وہ قربانی، جو اللہ رب العالمین کے ہاں قبول کی گئی ہو، اس کا اجر و ثواب مختلف انداز اور مختلف شکل و صورت میں انسان کو ملتا رہے گا۔ یعنی صرف پل صراط پر نہیں، بلکہ مختلف مقامات پر، مختلف احوال میں انسان کے کام آئے گا۔۔۔!

 

قربانی کے فائدے

جب انسان قربانی کی نیت سے جانور ذبح کرتا ہے تو خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے، گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

 

ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔

 

قربانی کا جانور اپنے کُھر، بالوں اور سینگوں کے ساتھ لایا جائے گا اور حساب کتاب کے ترازو میں ڈالا جائے گا۔

 

پل صراط پر یہ جانور سواری کا کام دے گا۔

 

 پل صراط کے بارے میں

پل صراط کی لمبائی اور مسافت بہت زیادہ ہے

 

پانچ سو سال چڑھائی

 

پانچ سو سال سیدھا راستہ

 

پانچ سو سال اترائی

 

اتنے لمبے سفر پر ایک عام جانور کا چلنا ناممکن ہے۔

 

بعض نے بُراق کی تشبیہ دی ہے لیکن یہ کسی روایت سے بطورِ ثبوت ثابت نہیں۔

 

قربانی کا جانور قیامت کے دن ایک ایسی خاص سواری کی شکل میں بنا دیا جائے گا، جو انسان کی سمجھ سے بالاتر ہو گی۔

 

اس سے مراد تیزی اور آسانی سے پل صراط عبور کرنا بھی ہو سکتی ہے۔

 

 کثیر جانوروں کا مسئلہ

یہ کہنا درست نہیں کہ

 

"سالانہ اتنے جانور قربان ہوتے ہیں، تو کون سا جانور پل صراط پر سواری دے گا؟"

 

یہ دنیاوی سوچ ہے، جبکہ قیامت کے حالات اور وہاں کی اشیاء دنیا سے بالکل مختلف ہوں گی۔

 

ممکن ہے کہ جتنے جانور اس دنیا میں قربانی کے طور پر ہر سال ذبح کیے گئے ہوں،

ان سب کے ثواب کے بدلے ایک ایسی برق رفتار سواری دی جائے،

جو پل صراط کو بجلی کی رفتار سے پار کرا دے گی۔

  دلائل و روایات

. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

 

"سَمِّنُوا ضَحَايَاكُمْ فَإِنَّهَا عَلَى الصِّرَاطِ مَطَايَاكُمْ"

"اپنی قربانی کے جانوروں کو موٹا تازہ کرو، کیونکہ وہ پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گی۔"

(مسند احمد)

 

 حضرت زید بن ارقمؓ کی روایت

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا

"یہ قربانیاں کیا ہیں؟"

آپ ﷺ نے فرمایا

"یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔"

پوچھا: "ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟"

فرمایا

"ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔"

اون کے بارے میں فرمایا

"ہر ریشہ کے بدلے بھی ایک نیکی ہے۔"

 

 حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

"قربانی کے دن اس عمل سے زیادہ محبوب کوئی عمل نہیں۔

قربانی کا جانور قیامت کے دن سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا

اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کی سند حاصل کر لیتا ہے،

لہٰذا خوش دلی سے قربانی کرو۔"

 

 حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں

"قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل افضل نہیں، سوائے صلہ رحمی کے۔"

(طبرانی)

 

 حضرت فاطمہؓ سے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد

"تم قربانی کے وقت ذبح کے مقام پر موجود رہو، کیونکہ

پہلا قطرۂ خون گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہو جاتی ہے۔"

 

مفتی محمد شریف چترالی حفظہ اللہ

(عفی عنہ)

ملتانی مٹی کھانا کیسا ہے؟ خواتین اکثر اس کو کھاتی ہیں، کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟

 

سوال

ملتانی مٹی کھانا کیسا ہے؟ خواتین اکثر اس کو کھاتی ہیں، کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟

 

 جواب

مٹی بذات خود کوئی حرام چیز نہیں ہے، لیکن اس کا کھانا انسانی صحت کے لیے عموماً نقصان دہ ہوتا ہے، اس لیے فقہاءِ کرام نے مٹی کے کھانے کو مکروہ قرار دیا ہے، لہذا اگر خواتین ملتانی مٹی کھاتی ہوں تو اتنی مقدار کھانے کی اجازت ہوگی جو صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔

 

حوالہ: الفتاویٰ عالمگیری

"أكل الطين مكروه، ذُكر في فتاوى أبي الليث، ذكر شمس الأئمة الحلواني في شرح صومه: إذا كان يخاف على نفسه أنه لو أكله أورثه ذلك علة أو آفة لا يباح له التناول، وكذلك هذا في كل شيءٍ سوى الطين، وإن كان يتناول منه قليلاً أو كان يفعل ذلك أحياناً لا بأس به، كذا في المحيط. الطين الذي يُحمل من مكة ويُسمى طيناً أحمر، هل الكراهية فيه كالكراهة في أكل الطين على ما جاء في الحديث، قال: الكراهة في الجميع متحدة، كذا في جواهر الفتاوى. وسُئل عن بعض الفقهاء عن أكل طين البخاري ونحوه، قال: لا بأس بذلك ما لم يضر، وكراهية أكله لا للحرمة، بل لتهييج الداء".

(الفتاویٰ الہندیہ، ج۶، ص۲۲۷، کتاب الکراہیہ، الباب الحادی عشر فی الکراہیہ فی الأکل وما یتصل بہا)

 

 واللہ اعلم بالصواب