"سید"، "اہلِ بیت" اور "آلِ رسول" سے کیا مراد ہے؟ کیا ان پر صدقہ حرام ہے؟ نیز "اہلِ بیت" کے مفہوم میں اختلاف کیوں ہے؟

 

"سید"، "اہلِ بیت" اور "آلِ رسول" سے کیا مراد ہے؟ کیا ان پر صدقہ حرام ہے؟ نیز "اہلِ بیت" کے مفہوم میں اختلاف کیوں ہے؟

جواب

’’سید‘‘  کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر ،حضرت عباس اورحضرت عقیل اورحضرت حارث  رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی اولاد میں سے ہیں، ان سب پر صدقہ حرام ہے۔

 

اور اہلِ بیت سے مراد  ازواجِ مطہرات اور نبی کریم ﷺ  کی آل و اولاد اور داماد یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ شامل ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

 

’’ بعض آئمہ تفسیر نے اہلِ بیت سے مراد  صرف ازواجِ مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی،(آیت) {واذکرن مایتلی في بیوتکن} (رواه ابن أبي حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساءالنبی کے الفاظ سے خطاب بھی  اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت اِن ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں ۔

لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاہد  ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن وحسین بھی شامل ہیں،  جیسے ’’صحیح مسلم‘‘  کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آ گئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آ گئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) {انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا}.  اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا: "اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي". (رواہ ابن جریر)

ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیثِ معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں، جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں‘‘۔ (معارف القرآن)

 

اور آلِ رسول کے مصداق میں متعدد اقوال ہیں، بعض محقیقن نے اس سے آپ ﷺ کی اولاد مراد لی ہے، اور اکثر  نے قرابت دار مراد لیے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، اور بعض نے مجازاً اسے تمام امتِ مسلمہ مراد لی ہے۔

 

"(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن الثاني مختار المحققين".

 فقط واللہ اعلم

غیر مسلم ممالک کی ائیر لائنز اور ہوٹلوں میں ملنے والے کھانے کا حکم

 

غیر مسلم ممالک کی ائیر لائنز اور ہوٹلوں میں ملنے والے کھانے کا حکم

سوال

غیر مسلم ممالک کی ایئر لائن میں سفر یا ان کے ہوٹلوں میں جب بھی قیام کرنا پڑتا ہے تو کھانے پینے کے حوالے سے کچھ دقتیں پیش آتی ہیں، ان کے حوالے سے راہ نمائی مطلوب ہے۔

ایئر لائن والے کھانے کے لیے ایک برگر نما کوئی چیز دیتے ہیں جس کے اندر انڈااور کچھ سبزی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ پینے کے لیے مشروب دیتے ہیں، اس میں جوس ہوتا ہے اور اس کے علاوہ بوتلیں اور چائے وغیرہ ہوتی ہے تو کیا ان چیزوں کا کھانا پینا جائز ہوگا؟ چائے کے لیے جو دودھ دیتے ہیں اس کے باہر بعض مرتبہ گائے کی تصویر بنی ہوتی ہے بعض مرتبہ نہیں ہوتی۔

ایسے ہی ہوٹل میں صبح ناشتے میں بریڈ، ابلے ہوئے انڈے، جوس، دودھ اور چائے وغیرہ ہوتی ہے، کیا ان چیزوں کا کھانا جائز ہے؟ اگر وہ ان چیزوں کو حلال کہیں تو کیا ان کے کہے کا کوئی اعتبار ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر غیر مسلم ممالک کی ائیر لائن یا ہوٹلوں میں عام کھانے کی چیزوں کے بارے میں ان کی طرف سے ان اشیاء کےحلال ہونے کی وضاحت مل جائے اور گوشت کے بارے میں اس کے کسی مسلمان سے خریدے ہوئےہونے کی یاکسی مسلمان کےذبح کرنے کی وضاحت مل جائے، تو اس صورت میں اس کو کھانابلاشبہ جائز ہے۔

 

اور اگر وضاحت نہ ملے بلکہ ان چیزوں کی حلت وحرمت کے بارے میں شک ہوتوحکم یہ ہے کہ گوشت کے علاوہ چیزوں میں جب تک اس کے حرام ہونے کا کوئی ثبوت نہ مل جائے تب تک اس کوکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے،البتہ گوشت کاحکم یہ ہے کہ جب تک اس کے حلال ہونے کا یقین نہ ہوجائے تب تک اس کو کھاناجائز نہیں ہے۔

 

لہذا غیر مسلم ممالک کی ائیر لائن اور ہوٹلوں میں انڈے اور سبزی سے بناہوابرگر،نیز ناشتہ میں جوس،دودھ اورچائے وغیرہ کھاناپیناجائز ہے،جب تک کہ اس کے حرام ہونے کایقین نہ ہوجائے،البتہ اگر کھانے میں گوشت کی کوئی قسم آجائے توجب تک کہ اس کے حلال ہونے کا یقین نہ ہوجائے،تب تک وہ نہ کھائی جائے۔

 

الإختيار لتعليل المختار  میں ہے

 

"ويقبل في المعاملات قول ‌الفاسق، ولا يقبل في ‌الديانات إلا قول العدل حرا كان أو عبدا، ذكرا أو أنثى.

 

قال: (ويقبل في المعاملات قول ‌الفاسق) لأنها يكثر وجودها من الناس، فلو شرطنا العدالة حرج الناس في ذلك، وما في الدين من حرج، فيقبل قول الواحد عدلا كان أو فاسقا، حرا كان أو عبدا، ذكرا أو أنثى، مسلما أو كافرا دفعا للحرج،قال: (ولا يقبل في ‌الديانات إلا قول العدل حرا كان أو عبدا، ذكرا أو أنثى) لأن الصدق فيه راجح باعتبار عقله ودينه، سيما فيما لا يجلب له نفعا ولا يدفع عنه ضررا، ولهذا قبلت رواية الواحد العدل للأخبار النبوية، وإنما اشترطنا العدالة لأنها مما لا يكثر وقوعها كثرة المعاملات، ولأن ‌الفاسق متهم والكافر غير ملتزم لها فلا يلزم المسلم بقوله، بخلاف المعاملات فإنه لا مقام له في دارنا إلا بالمعاملة، ولا معاملة إلا بقبول قوله، ولا كذلك ‌الديانات والمعاملات كالإخبار بالذبيحة والوكالة والهبة والهدية والإذن ونحو ذلك، والديانات كالإخبار بجهة القبلة وطهارة الماء."

 

(ص:١٦٣،ج:٤،کتاب الكراهية،فصل في مسائل مختلفة،ط:دار الكتب العلمية)

 

حاشية ابن عابدين  میں ہے:

 

"(ويقبل قول كافر) ولو مجوسيا (قال اشتريت اللحم من كتابي فيحل أو قال) اشتريته (من مجوسي فيحرم) ولا يرده بقول الواحد وأصله أن خبر الكافر مقبول بالإجماع في المعاملات لا في ‌الديانات وعليه يحمل قول الكنز ويقبل قول الكافر في الحل والحرمة يعني الحاصلين في ضمن المعاملات لا مطلق الحل والحرمة.

 

(قوله أو قال اشتريته من مجوسي فيحرم) ظاهره أن الحرمة تثبت بمجرد ذلك، وإن لم يقل ذبيحة مجوسي وعبارة الجامع الصغير، وإن كان غير ذلك لم يسعه أن يأكل منه قال في الهداية معناه إذا قال كان ذبيحة غير الكتابي والمسلم اهـ تأمل. وفي التتارخانية قبيل الأضحية عن جامع الجوامع لأبي يوسف من اشترى لحما فعلم أنه مجوسي وأراد الرد فقال ذبحه مسلم يكره أكله اهـ ومفاده أن مجرد كون البائع مجوسيا يثبت الحرمة، فإنه بعد إخباره بالحل بقوله ذبحه مسلم كره أكله فكيف بدونه تأمل."

 

(ص:٣٤٤،ج:٦،کتاب الحظر والإباحة،ط:ایج ایم سعید)

 

مجمع الأنهر شرح ملتقي الأبحر  میں ہے

 

"واعلم أن ‌الأصل ‌في ‌الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى: هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا، وقال: كلوا مما في الأرض حلالا طيبا، وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة."

 

(ص:٥٦٨،ج:٢،کتاب الأشربة،ط:دار إحياء التراث)

 

بدائع الصنائع  میں ہے

 

"(ومنها) أن يكون مسلما أو كتابيا فلا تؤكل ذبيحة أهل الشرك والمجوسي والوثني وذبيحة المرتد أما ذبيحة أهل الشرك فلقوله تعالى: وما أهل لغير الله، وقوله عز وجل :وما ذبح على النصب، أي للنصب وهي الأصنام التي يعبدونها، وأما ذبيحة المجوس فلقوله عليه الصلاة والسلام: سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب غير ناكحي نسائهم ولا آكلي ذبائحهم،ولأن ذكر اسم الله تعالى على الذبيحة من شرائط الحل عندنا لما نذكر ولم يوجد."

 

(ص:٤٥،ج:٥،کتاب الذبائح والصیود،فصل في بيان شرط حل الأكل في الحيوان المأكول،ط:دار الکتب العلمية)

 

فقط والله أعلم

سوال: مفتی صاحب ! کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جمعہ کی نماز میں فرض سے پہلے یا بعد میں چار رکعت سنت نہیں، بلکہ فرض سے پہلے بھی دو دو رکعت اور فرض کے بعد بھی دو دو رکعت سنت پڑھنی چاہیے، آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ بات درست ہے؟

جمعہ کی نماز سے پہلے اور بعد کی سنتوں کا ثبوت اور اس کی رکعات

 

 

سوال: مفتی صاحب ! کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جمعہ کی نماز میں فرض سے پہلے یا بعد میں چار رکعت سنت نہیں، بلکہ فرض سے پہلے بھی دو دو رکعت اور فرض کے بعد بھی دو دو رکعت سنت پڑھنی چاہیے، آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ بات درست ہے؟

 

الجواب:

امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ کی سنتوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہے، بلکہ آدمی کی اپنی صوابدید پر ہے، جتنا پڑھ سکے۔

اور جمہور ائمہ کرام کے نزدیک جمعہ کی سنتیں ثابت بھی ہیں اور متعین بھی، مگر تعداد کتنی ہے، اس میں اختلاف ہے۔

امام شافعی کے نزدیک جمعہ سے پہلے کی سنتیں دو رکعات ہیں، اور احناف اور حنابلہ کے نزدیک چار رکعات ہیں۔

احناف کے دلائل

سنن ترمذی میں ہے

حضور ﷺ زوال کے بعد چار رکعات نماز ایک ہی سلام کے ساتھ ادا فرماتے۔

اس حدیث سے زوال کے بعد چار رکعات ادا کرنے سے متعلق حضور ﷺ کی عادت مبارکہ ثابت ہورہی ہے، اور اس میں چونکہ جمعہ کا استثناء نہیں ہے، بلکہ یہ تمام ایام کو شامل ہے، اس لیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن فرض نماز سے پہلے بھی چار رکعات سنت ہیں۔

٢- سنن ابن ماجہ میں ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جمعہ (کی فرض نماز) سے پہلے چار رکعات ایک سلام کے ساتھ ادا فرماتے۔

٣- شرح مشكل الآثار میں امام طحاوی نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نماز (سنتیں) پڑھتا ہے، تو جمعہ سے پہلے چار رکعات پڑھ لے۔

 

معجم کبیر میں ہے

ابو عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ہمیں جمعہ سے پہلے چار رکعات پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔

٥- "مصنف عبدالرزاق" نے نقل کیا ہے کہ عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ہمیں جمعہ سے پہلے اور بعد میں چار رکعات پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔

٦- امام زبیدی "عقود جواھر المنیفة" میں روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ماقبل ذکر کی گئی احادیث میں چار رکعات کو ہمارے ائمہ (احناف) نے سنتِ ظہر پر محمول کیا ہے، اور ان احادیث کے عموم اور ابن مسعود کے عمل کی وجہ سے جمعہ سے پہلے کی سنتوں کو بمنزلہ سنتِ ظہر قرار دیا ہے، اور ابن مسعود کا مقتداء ہونا کافی ہے۔

اور اس حوالے سے حضرت ابن مسعود، ابن عباس اور صفیہ وغیرہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی گئی ہے۔

جمعہ کے بعد کی سنتیں:

جمعہ کے بعد کی سنتیں امام ابوحنیفہ کے نزدیک چار رکعات ہیں

اور صاحبین، امام اسحق ، امام احمد کا قول (امام شوکانی کی روایت کے مطابق) چھ رکعات سنتیں ہیں۔

امام ابوحنیفہ کی دلیل:

١.حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جمعہ کے بعد نماز پڑھے، تو اس کو چاہیے کہ چار رکعات پڑھے۔

٢. ابن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔

صاحبین کی دلیل:

امام ترمذی نے حضرت علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل جمعہ کے بعد چھ رکعات پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔

"مصنف ابن ابی شیبہ" میں ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ کے بعد چھ رکعات ادا فرماتے: پہلے دو رکعات، پھر چار۔

"مصنف عبدالرزاق" میں ہے

امام ابو عبد الرحمن سلمی تابعی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہمیں حکم فرماتے کہ ہم جمعہ سے قبل چار رکعات اور جمعہ کے بعد چار رکعات ادا کریں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ہمیں حکم دیا کہ جمعہ کے بعد اولاً دو رکعات ادا کریں، پھر چار رکعات۔

خلاصہ کلام

اس ساری تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ جمعہ کی فرض نماز سے پہلے چار رکعات سنت مؤکدہ ہیں، اور فرض کے بعد راجح اور مفتی بہ قول کے مطابق پہلے چار رکعات اور پھر دو رکعات یعنی چھ رکعات سنت مؤکدہ ہیں۔

 

دلائل

 

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 478)

عن عبد الله بن السائب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يصلي اربعا بعد ان تزول الشمس قبل الظهر، وقال: إنها ساعة تفتح فيها ابواب السماء، واحب ان يصعد لي فيها عمل صالح ". قال: وفي الباب عن علي وابي ايوب، قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن السائب حديث حسن غريب، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان " يصلي اربع ركعات بعد الزوال لا يسلم إلا في آخرهن ".

 

سنن ابن ماجه: (بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ قَبْلَ الْجُمُعَةِ، رقم الحدیث: 1129)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ مُبَشِّرِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوفِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَرْكَعُ قَبْلَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعًا، لا يَفْصِلُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ.

 

شرح مشكل الآثار للامام الطحاوي: (298/10، ط: مؤسسة الرسالة)

عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان مصليا، فليصل قبل الجمعة أربعا، وبعدها أربعا " قال عبيد: فقلت لأبيض: إن سفيان حدثني به عن سهيل،عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان مصليا بعد الجمعة، فليصل أربعا

 

المعجم الكبير للطبراني: (310/9، ط: ابن تیمیة)

عن أبي عبد الرحمن، قال: «كان ابن مسعود يأمرنا أن نصلي قبل الجمعة أربعا، وبعدها أربعا» حتى جاء علي «فأمرنا أن نصلي بعدها ركعتين، ثم أربعا»

 

مصنف عبد الرزاق: (247/3، ط: المجلس العلمی)

 عن الثوري، عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن السلمي قال: كان عبد الله يأمرنا أن نصلي قبل الجمعة أربعا، وبعدها أربعا، حتى جاءنا علي فأمرنا أن نصلي بعدها ركعتين ثم أربعا

 

مشكل الآثار للامام الطحاوي: (298/10، ط: مؤسسة الرسالة)

عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان مصليا بعد الجمعة، فليصل أربعا

 

المعجم الكبير للطبراني: (310/9، ط: ابن تیمیة)

عن أبي عبد الرحمن، قال: «كان ابن مسعود يأمرنا أن نصلي قبل الجمعة أربعا، وبعدها أربعا» حتى جاء علي «فأمرنا أن نصلي بعدها ركعتين، ثم أربعا»

 

سنن الترمذی

وَابْنُ عُمَرَ هُوَ الَّذِي رَوَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ، وَابْنُ عُمَرَ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ بَعْدَ الجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّى بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ أَرْبَعًا

 

مصنف ابن أبي شيبة: (464/1، ط: مکتبة الرشد)

عن أبي عبد الرحمن، قال: قدم علينا ابن مسعود، فكان «يأمرنا أن نصلي بعد الجمعة أربعا»، فلما قدم علينا علي، «أمرنا أن نصلي ستا»، فأخذنا بقول علي، وتركنا قول عبد الله، قال: «كنا نصلي ركعتين، ثم أربعا»

 

و فیه ایضا: (465/1، ط: مکتبة الرشد)

حدثنا شريك، عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن حبيب، قال: «كان عبد الله، يصلي أربعا» فلما قدم علي صلى ستا، ركعتين، وأربعا۔

 

و فیه ایضا: (466/1، ط: مکتبة الرشد)

حدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا صَلَّى الْجُمُعَةَ صَلَّى بَعْدَهَا سِتَّ رَكَعَاتٍ: رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَرْبَعًا.

 

و فیه ایضاً: (247/3، ط: المجلس العلمي)

 عن الثوري، عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن السلمي قال: كان عبد الله يأمرنا أن نصلي قبل الجمعة أربعا، وبعدها أربعا، حتى جاءنا علي فأمرنا أن نصلي بعدها ركعتين ثم أربعا

 

المغني لابن قدامة المقدسي: (270/2، ط: مكتبة القاهرة)

فصل: فأما الصلاة قبل الجمعة، فلا أعلم فيه إلا ما روي «، أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يركع من قبل الجمعة أربعا» . أخرجه ابن ماجه. وروى عمرو بن سعيد بن العاص، عن أبيه، قال: كنت ألقى أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فإذا زالت الشمس قاموا فصلوا أربعا.

قال أبو بكر: كنا نكون مع حبيب بن أبي ثابت في الجمعة، فيقول: أزالت الشمس بعد؟ ويلتفت وينظر فإذا زالت الشمس، صلى الأربع التي قبل الجمعة.

وعن أبي عبيدة، عن عبد الله بن مسعود، أنه كان يصلي قبل الجمعة أربع ركعات، وبعدها أربع ركعات. رواه سعيد

 

المجموع شرح المهذب للامام النووي: (9/4، ط: دار الفکر)

في سنة الجمعة بعدها وقبلها: تسن قبلها وبعدها صلاة وأقلها ركعتان قبلها وركعتان بعدها والأكمل أربع قبلها وأربع بعدها

 

غنیة المستملي: (ص: 389، ط: رشیدیة)

والأفضل أن یصلي أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف

 

واللہ تعالی اعلم بالصواب 

حالت نزع میں مبتلا شخص کو تلقین اور اس کے پاس سورۂ یاسین کی تلاوت

 

حالت نزع میں مبتلا شخص کو تلقین اور اس کے پاس سورۂ یاسین کی تلاوت

سوال

حالتِنزع کے وقت انسان کے پاس کون سی سورہ پڑھی جائے کہ جو مسنون ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص حالتِ نزع میں ہو  تو سنت یہ ہے کہ اس کو  قبلہ کی طرف متوجہ کرکے لٹادیا جائے، بشر ط یہ کہ اس سے اس کو تکلیف نہ ہو ورنہ اسی طرح چھوڑدیا جائے، اور اس کے قریب اس کے رشتہ دار کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت کی تلقین کریں،تلقین کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے کے پاس خود  کلمہ پڑھتے رہیں کہ جسے سن کر نزع میں مبتلا شخص  خود کلمہ پڑھ لے، لیکن اس کو کلمہ پڑھنے کا حکم نہ دیا جائے، اور اس کے قریب سورۂ یاسین کی تلاوت کی جائے۔

 

سنن أبي داود (3/ 191)

"عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْرَءُوا يٰس عَلَى مَوْتَاكُمْ». وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْعَلَاءِ".

الفتاوى الهندية (1/ 157):

" إذا احتضر الرجل وجه إلى القبلة على شقه الأيمن وهو السنة، كذا في الهداية. وهذا إذا لم يشق ترك على حاله، كذا في الزاهدي ... ولقن الشهادتين، وصورة التلقين أن يقال عنده في حالة النزع قبل الغرغرة جهراً وهو يسمع: أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً رسول الله، ولا يقال له: قل، ولايلح عليه في قولها؛ مخافة أن يضجر، فإذا قالها مرةً لايعيدها عليه الملقن إلا أن يتكلم بكلام غيرها، كذا في الجوهرة النيرة ... وحضور أهل الخير والصلاح مرغوب فيه ويستحب قراءة سورة يس عنده، كذا في شرح منية المصلي لابن أمير الحاج، ويحضر عنده من الطيب، كذا في الزاهدي، ولا بأس بجلوس الحائض والجنب عنده وقت الموت، كذا في فتاوى قاضي خان".

 فقط واللہ اعلم

میری ایک بہن لندن میں رہتی ہیں، بچی پیدا ہونے کی وقت ان کو خون کی ضرورت پڑی تو ڈاکٹر نے کسی اور کا خون دیا، ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ خون مسلمان کا ہے یا غیر مسلم کا، اگر غیر مسلم کا ہے تو ہمارے لیے گناہ ہوگا یا زندگی پر کچھ اثر تو نہیں ہوگا؟

 

سوال

میری ایک بہن لندن میں  رہتی ہیں، بچی پیدا ہونے کی وقت   ان کو خون کی ضرورت  پڑی تو  ڈاکٹر نے کسی اور کا خون دیا،  ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ خون مسلمان  کا ہے یا غیر مسلم کا،  اگر غیر مسلم کا ہے تو ہمارے  لیے گناہ  ہوگا یا زندگی پر کچھ  اثر تو نہیں ہوگا؟

الجواب

مسلمان مریض کو غیر مسلم کا خون لگانا جائز توہے ،لیکن بہتر نہیں ہے ؛ کیوں کہ کافر کے خون میں جو اثراتِ خبیثہ ہیں، ان کے منتقل ہونے اور اس پر اثر انداز ہونے کا  خطرہ ہے، اسی لیے صلحائے امت نے  شیر خوار بچے کو فاسقہ عورت کا دودھ پلوانا بھی پسند نہیں کیا ، لہٰذا  مسلمان مریض کو غیر مسلم کا خون لگانے سے حتی الوسع اجتناب بہتر ہے، ضرورت ہو اور کوئی صورت نہ ہو تو لگالیا جائے ؛ لہذا ٓئندہ احتیاط کی جائے۔

 

 فقط واللہ اعلم

اگر لڑکی نے خود لڑکے کو وکیل بنایا ہو کہ وہ اس سے نکاح کرے، تو کیا لڑکا خود اپنا نکاح اس لڑکی سے پڑھا سکتا ہے؟

 اگر لڑکی نے خود لڑکے کو وکیل بنایا ہو کہ وہ اس سے نکاح کرے، تو کیا لڑکا خود اپنا نکاح اس لڑکی سے پڑھا سکتا ہے؟

جواب
جی ہاں! اگر کوئی عاقلہ بالغہ لڑکی لڑکے کو اس بات کا وکیل بنائے کہ وہ خود اس لڑکی سے نکاح کرے، تو لڑکا دو عاقل بالغ مسلمان مرد گواہوں کی موجودگی میں لڑکی کی طرف سے ایجاب اور اپنی طرف سے قبول (یا بالعکس) کر کے نکاح خود پڑھا سکتا ہے، اور شرعاً یہ نکاح منعقد ہو جائے گا۔

البتہ افضل اور بہتر یہ ہے کہ لڑکی نکاح اپنے والدین یا ولی کی اجازت اور موجودگی میں کرے، تاکہ ان کی دعائیں اور مشورہ اس کی زندگی میں خیر و برکت کا سبب بنے۔

واللہ اعلم بالصواب
محمد شریف فاروقی – عفی عنہ


اگر نکاح کے وقت دلہن مجلسِ نکاح میں موجود نہ ہو تو کیا نکاح درست ہو جائے گا؟ گواہوں کا دلہن کو پہچاننا ضروری ہے یا نہیں؟

 

سوال نمبر

اگر نکاح کے وقت دلہن مجلسِ نکاح میں موجود نہ ہو تو کیا نکاحدرست ہو جائے گا؟ گواہوں کا دلہن کو پہچاننا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب
واضح رہے کہ گواہوں کا دلہن کو پہچاننے سے مراد اس کی ذات کا تعارف ہے، اس کی تشخیص نہیں۔ لہٰذا اگر دلہن مجلسِ نکاح میں موجود نہ ہو، تب بھی اس کی ولدیت سمیت نام کے ذریعہ تعارف کروانا کافی ہے۔ اس سے نکاح شرعاً منعقد ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر

 

اگر کلمہ طیبہ کے فرائض سے مراد وہ شرائط ہیں جن سے بندہ اسلام میں داخل ہوتا ہے، تو ان کی وضاحت کیا ہے

 

سوال

اگرکلمہ طیبہ کے فرائض سے مراد وہ شرائط ہیں جن سے بندہ اسلام میں داخل ہوتا ہے، توان کی وضاحت کیا ہے؟

جواب

اگر آپ کی مراد کلمہ طیبہ کے فرائض سے یہ ہے کہ کن شرائط کے ساتھ اس کلمہ کو پڑھنے والا اسلام میں داخل ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ

جو شخص عقیدہ کی درستی کے ساتھ زبان سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرے گا، وہ مسلمان ہو گا۔

پھر اس کلمہ کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جملہ احکام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق پورا کرے، یہ پورے دین کا خلاصہ اور کلمہ طیبہ کا مقتضا ہے۔

 

کیا ایمان کے بھی فرائض ہوتے ہیں؟ اور اگر کوئی کہے کہ کلمہ طیبہ کے فرائض ہوتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟

سوال

کیا ایمان کے بھی فرائض ہوتے ہیں؟ اور اگر کوئی کہے کہ کلمہ طیبہ کے فرائض ہوتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب

الجواب ۔۔۔!!!

ایمان کے فرائض تو نہیں ھیں، البتہ ایمان کی شرائط ھیں۔۔۔!

شرائطِ ایمان

ایمان کی سات شرطیں ہیں

1.    ایمان بالغیب یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اور ان تمام چیزوں پر جن شریعت سے بیان کیا ہے لیکن انسان کی عقل اور حواس خمسہ سے ماورا ہیں۔۔۔ انسان ان کو دیکھ نہیں سکتا۔۔۔ محسوس نہیں کرسکتا۔

2.    عالم الغیب اللہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے اور اسی کی شان ہے۔

3.    ایمان اپنے اختیار اور عقل و ہوش سے لانا۔۔۔ بے ہوشی یا زبردستی ایمان لانا غیر معتبر ہے۔۔۔!

4.    اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیز کو حلال جاننا

5.    اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیز کو حرام جاننا

6.    قبر اور اس کے عذاب سے ڈرنا

7.    اس کی رحمت کا امیدوار ہونا۔

دل اور زبان سے ایمان قبول کرنا اس کی حقیقت ہے، اور عمر بھر میں ایک دفعہ ایمان لانا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہنا فرض ہے، اور اس کے بعد تکرارِ ایمان سنت ہے...!

 


کیا آستین اوپر موڑ کر یا آدھی آستین والی شرٹ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے؟ نیز وضو کے بعد ہاتھ خشک کرنا افضل ہے یا نہ کرنا؟

  

کیاآستین اوپر موڑ کر یا آدھی آستین والی شرٹ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے؟ نیز وضو کےبعد ہاتھ خشک کرنا افضل ہے یا نہ کرنا؟

جواب

 نماز کے دوران آستین اوپر چڑھانا

صورتِ مسئولہ میں آستین کو اوپر کی طرف موڑ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، کیونکہ اس میں خلافِ ادب اور تواضع کے خلاف پہلو پایا جاتا ہے۔

 آدھی آستین والی شرٹ میں نماز

اسی طرح ایسی قمیص یا شرٹ پہن کر نماز پڑھنا جو آدھی آستین کی ہو، مکروہِ تنزیہی ہے، کیونکہ اس میں نماز کی ہیبت اور خشوع و خضوع میں کمی آتی ہے، اگرچہ نماز ادا ہو جاتی ہے۔

 وضو کے بعد ہاتھ یا دیگر اعضا خشک کرنا

اس بارے میں دو طریقے سنت سے ثابت ہیں

 

اعضاء کو خشک کرنا

جمہور اہلِ علم کے نزدیک وضو کے بعد تولیہ یا کپڑے سے اعضاء خشک کرنا افضل ہے تاکہ کپڑے تر نہ ہوں کسی دوسرے کو اذیت نہ ہو

سردی کے موسم میں تکلیف نہ ہو

 حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا

"كانت لرسولِ الله ﷺ خرقةٌ ينشّفُ بها بعدَ الوضوء"

(سنن ترمذی، ج 1، ص 74)

 

تحفۃ الأحوذی کی شرح

 

"النبي صلى الله عليه وسلم كان له منديل أو خرقة يمسح بها وجهه إذا توضأ"

(تحفۃ الأحوذی، ج 1، ص 144)

 

اعضاء کو خشک نہ کرنا

بعض صحابہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تولیہ لینے سے انکار فرمایا اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے چلے گئے۔

 حدیثِ میمونہ رضی اللہ عنہا

 

"ناولته ثوباً فلم يأخذه فانطلق وهو ينفض يديه"

(صحیح بخاری، ج 1، ص 63)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

فتویٰ

یہ بلاگ تلاش کریں

آپ کا مطلوبہ فتویٰ تلاش کریں: مسئلہ، سوال، یا عنوان لکھیں

"قرآن، حدیث، فقہ، اسلامی تاریخ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح، طلاق، فتاویٰ، مسنون دعائیں، درود شریف،

مشہور اشاعتیں

About me

Welcome to Wisdom Nexus. I'm Muhammad Abu Ubaidah, an Islamic scholar and educator from Kot Addu, Pakistan. I have completed the full Dars-e-Nizami course۔Thank you for being here.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *