بدھ، 28 مئی، 2025

سوال کیا ذی الحجہ کے مکمل دس روزے رکھنا ضروری ہیں یا ایک، دو روزے بھی رکھ سکتے ہیں؟

سوال

کیا ذی الحجہ کے مکمل دس روزے رکھنا ضروری ہیں یا ایک، دو روزے بھی رکھ سکتے ہیں؟

جواب

ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام بڑی فضیلت کے حامل ہیں، بعض مفسرین نے قرآنِ کریم کی سورہ فجر کی آیتِ کریمہ

   (ولیالٍ عشر) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے، اس سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان ایام میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان دنوں کی عبادت کی بہت زیادہ فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے، چاہے یہ عبادات ذکر و اذکار کی صورت میں ہوں، یا قیام اللیل کی صورت میں یا روزوں کی صورت میں۔

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام میں ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے، اور بطورِ خاص یومِ عرفہ (9 ذوالحجہ)کے روزے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس دن کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ذوالحجہ کے شروع کے نو دن روزے رکھنے کی فضیلت ہے، جب کہ دسواں دن چوں کہ عید کا دن ہوتا ہے؛ اس لیے ذو الحجہ کے دسویں دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، بہرحال ذو الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں سے طاقت اور استطاعت کے مطابق جتنے دن روزے رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں، مکمل نو روزے رکھنا ضروری نہیں ہے، مسلسل نو روزے بھی رکھ سکتے ہیں اور اس سے کم بھی رکھنا دررست ہے۔البتہ نو ذو الحجہ کے روزے کی فضیلت بہت زیادہ ہے؛ اس لیے اس کا اہتمام کرلینا چاہیے ۔

اس سلسلہ کی احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں:
ترمذی شریف میں ہے:

"عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَيْئٍ."
(باب ما جاء في العمل في أيام العشر، 3/130 ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گئے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کیے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اگر ان دس دنوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! تب بھی اِن ہی اَیام کا عمل زیادہ محبوب ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان و مال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیاتو یہ افضل ہے)۔

وفیه أیضاً:
"عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ."
( باب ما جاء في فضل صوم يوم عرفة ،3/124 ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)

ترجمہ: حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے۔

وفیه أیضاً:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ کُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْر."
(باب ما جاء في العمل في أيام العشر، 3/131 ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔

فقط واللہ اعلم

سوال کیا سادات خاندان کا درجہ دیگر خاندانوں سے افضل ہے؟

 

سوال

کیا سادات خاندان کا درجہ دیگر خاندانوں سے افضل ہے؟

جواب

چونکہ سادات افضل، بہترین اور معزز خاندان ہے، اس لیے اگر اس خاندان کی بیٹی خود دوسرے کسی خاندان میں رشتہ کرے گی، تو کفو کا مسئلہ درپیش ہوگا۔

سوال

کفو کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا ہدایت ہے؟

جواب

کفو کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد موجود ہے، جس کا مفہوم ہے
"ولی کے بغیر نکاح باطل ہے" (الحدیث)

سوال

کیا سید خاندان کی لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر غیر سید سے نکاح کر سکتی ہے؟

جواب

سید خاندان کی بیٹی ولی کی اجازت کے بغیر دوسرے خاندان میں رشتہ نہیں کر سکتی، لیکن اگر عاقلہ و بالغہ سیدہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر غیر سید مسلمان لڑکے سے نکاح کرے، تو بھی نکاح منعقد ہو جائے گا۔

ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کا از خود نکاح کرنا شرعًا، اخلاقًا اور عرفًا معیوب و ناپسندیدہ ہے۔

سوال

اگر نکاح میں کفو کا لحاظ نہ رکھا جائے تو کیا ولی کو اعتراض کا حق حاصل ہے؟

جواب

اگر لڑکا اس لڑکی کا کفو نہ ہو (یعنی قریش کے علاوہ دیگر عرب قبیلہ کا یا عجمی قوم میں سے ہو) اور ولی کو اس پر اعتراض ہو، تو اولاد ہونے سے پہلے ولی بذریعۂ عدالت اس نکاح کو ختم کروا سکتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
مفتی محمد شریف فاروقی عفی عنہ

 

سوال کیا سادات خاندان کے ساتھ غیر سادات خاندان کا رشتہ جائز ہے؟

 

سوال

کیا سادات خاندان کے ساتھ غیر سادات خاندان کا رشتہ جائز ہے؟

جواب

سادات خاندان کے ساتھ غیر سادات خاندان کا رشتہ کرنے کی قرآن و سنت میں ممانعت نہیں ہے، البتہ دین اسلام میں رشتہ کرتے وقت کفو(برابری یعنی)

  کا مسئلہ اپنی جگہ مسلم ہے

فقط واللہ اعلم

سوال کیا امت مسلمہ میں سادات خاندان کا احترام پایا جاتا ہے؟سوال جو لوگ سادات کے مسئلے پر بحث کر کے امت میں تفرقہ ڈالتے ہیں ان کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟

 

سوال

کیا امت مسلمہ میں سادات خاندان کا احترام پایا جاتا ہے؟

جواب

ہر دور میں امت مسلمہ کے معاشرے میں سادات خاندان کو پہچانا گیا ہے اور ادب و احترام کی نظر سے دیکھا گیا ہے، رشتہ کرنے میں اور زکوٰۃ وغیرہ دینے میں۔

سوال

جو لوگ سادات کے مسئلے پر بحث کر کے امت میں تفرقہ ڈالتے ہیں ان کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟

جواب

اگر کوئی جاہل تمام امت مسلمہ کو کچرے دان میں ڈال کر خود کو علامہ فہامہ بنا کر ایک ایسی بات پر بحث کرتا ہے، جو خود اس کی جہالت عیاں کر رہا ہے، تو وہ فتنہ پھیلا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور فتنہ اور شرور سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

مفتی محمد شریف چترالی عفی عنہ

 

سوال کیا ہر شخص جو خود کو سید کہے، وہ واقعی سید ہوتا ہے؟

 

سوال

کیا ہر شخص جو خود کو سید کہے، وہ واقعی سید ہوتا ہے؟

جواب

آج کے دور میں بہت سارے لوگ سادات خاندان سے ہونے کا دعوے دار ہیں، اور ہر چرسی پوڈری وغیرہ سید بننے کا خواہش مند ہے۔
لہٰذا اصول یہ ہے کہ سید وہی ہے جس کا تعلق حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک خاندان سے ہو۔ اس کے دو طریقے ہیں

نسب کی سند

سادات خاندان کے نسب کی سند ہو۔

عرف و شہرت

علاقے اور عوام میں جس خاندان کو سادات خاندان کے طور پر پہچانا جاتا ہو، اگرچہ اس کے پاس سند نہ ہو۔

فقط واللہ اعلم

سوال "سید" کہنے کا عرفی استعمال کب سے رائج ہے؟

 

سوال

"سید" کہنے کا عرفی استعمال کب سے رائج ہے؟

جواب

فتاویٰ حاوی میں مذکور ہے
"بے شک ’سید‘ کا اطلاق قرونِ اولیٰ میں ہر اُس شخص پر ہوتا تھا جو اہلِ بیت کرام سے ہو، چاہے وہ حسنی ہو، حسینی ہو، یا علوی ہو، محمد بن حنفیہ کی اولاد اور دیگر اولادِ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، یا جعفری ہو، یا عقیلی ہو، یا عباسی۔۔۔ جب مصر میں خلفاءِ فاطمیین کو حکومت ملی تو انہوں نے ’سید‘ کا لفظ فقط حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے لیے مختص کر دیا، چناں چہ یہ تخصیص اس دور سے اب تک قائم ہے۔"
(الحاوی للفتاوی للسيوطی، جلد 2، صفحہ 39، دارالفکر، بیروت)

فقط واللہ اعلم

سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو "سید" کہا ہے؟

 

سوال

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو "سید" کہا ہے؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو "سید" فرمایا ہے، اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو "سیدا شباب اہل الجنۃ" یعنی جنت کے جوانوں کے سردار فرمایا ہے، اور اماں فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جنت کی عورتوں کی سردار فرمایا ہے۔

فقط واللہ اعلم

سوال علمائے کرام نے "سید" کے کیا معنی بیان کیے ہیں؟

 

سوال

علمائے کرام نے "سید" کے کیا معنی بیان کیے ہیں؟

جواب

علامہ ابن منظور افریقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
"مالک، شریف، سخی، تحمل کرنے والا، رئیس، سید کہتے ہیں۔"
(لسان العرب 8/24)

نیز فرمایا
"سید وہ ہے جو اپنی قوم پر فائق ہو، سیادت قیادت، ریاضت اور بلند مرتبہ سے عبارت ہے، سید وہ ہے جو خیر میں اپنی قوم پر فائق ہو۔"
(مشارق الانوار، جلد سوم)

فقط واللہ اعلم

سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو "سادات" اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد کو "سید" کہنا کوئی عقیدے کا مسئلہ ہے؟

 

سوال

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو "سادات" اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد کو "سید" کہنا کوئی عقیدے کا مسئلہ ہے؟

جواب

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس بات کا تعلق عقیدے سے ہو، تو اس کا ثبوت قرآن مجید اور احادیث متواترہ سے ہونا لازم ہے، اور فروعی مسائل ہیں ان کا ثبوت خبرِ واحد، اجماع امت مسلمہ اور قیاس سے ہو جاتا ہے۔
لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو سادات کہنا یا جس شخص کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہو اس کو سید کہنا، یہ کوئی عقیدہ اور فروعی مسئلہ نہیں ہے کہ تم اس کے لیے قرآن کریم کی آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ سے ثبوت مانگتے ہو۔ یہ صرف اور صرف جہالت ہے، اور عام عرفی اور ایک اصطلاحی مسئلے میں امت مسلمہ کے اندر نفرت پھیلانا اور تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش ہ
ے

فقط واللہ اعلم

 

منگل، 27 مئی، 2025

کیا ہم بھینس کی قربانی میں حصہ ڈال سکتے ہیں؟ اور کیا بھینس کی قربانی سنتِ رسول ﷺ ہے یا نہیں؟

سوال
کیا ہم بھینس کی قربانی میں حصہ ڈال سکتے ہیں؟ اور کیا بھینس کی قربانی سنتِ رسول ﷺ ہے یا نہیں؟

جواب
رسول اللہ ﷺ سے گائے کا ذبح کرنا تو صراحت کے ساتھ ثابت ہے، لیکن بھینس کا قربانی میں ذبح کرنا صراحت کے ساتھ منقول نہیں ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، جیسے کہ سرزمینِ حجاز میں بھینسوں کی قلت یا اس وقت ان کا عدمِ وجود۔

تاہم

  • بھینس بھی گائے کی ہی جنس سے ہے۔
  • فقہاءِ کرام
  • اور ماہرینِ حیوانات نے بھی بھینس کو گائے ہی کی قسم شمار کیا ہے۔

لہٰذا

بھینس کی قربانی کرنا شرعًا جائز ہے
اور
اس میں حصہ ڈالنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔

حوالہ
فتح القدیر

"ويدخل في البقر الجاموس؛ لأنه من جنسه."
(فتح القدیر: 22/106)

فقط واللہ اعلم

  

سوال اگر کوئی غیر مسلم سلام میں پہل کرے تو اس کا کیا جواب دینا چاہیے؟ اور کیا خود غیر مسلم کو سلام میں پہل کرنی چاہیے؟

 

سوال
اگر کوئی غیر مسلم سلام میں پہل کرے تو اس کا کیا جواب دینا چاہیے؟ اور کیا خود غیر مسلم کو سلام میں پہل کرنی چاہیے؟

جواب
اگر کوئی غیر مسلم سلام میں پہل کرے تو جواب میں صرف "وعلیکم" کہہ دینا چاہیے۔ البتہ خود غیر مسلم کو سلام میں پہل نہیں کرنی چاہیے۔

حدیثِ مبارکہ
عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم
"إذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا: وعليكم۔"
(الصحیح للبخاری، کتاب الاستئذان، باب: كيف يرد على أهل الذمة السلام، 8/57، ط: دار طوق النجاة)

 

اتوار، 25 مئی، 2025

سوال اگر امام صاحب قعدہ اُولیٰ (التحیات) میں نہ بیٹھیں اور مقتدی اُنہیں بیٹھنے کا لقمہ دیں یا زبردستی بٹھائیں، تو کیا حکم ہے؟ اور اگر امام آخر میں سجدۂ سہو کر لیں تو نماز کا کیا حکم ہو گا؟

 

سوال

اگر امام صاحب قعدہ اُولیٰ (التحیات) میں نہ بیٹھیں اور مقتدی اُنہیں بیٹھنے کا لقمہ دیں یا زبردستی بٹھائیں، تو کیا حکم ہے؟ اور اگر امام آخر میں سجدۂ سہو کر لیں تو نماز کا کیا حکم ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں

مقتدیوں پر لازم تھا کہ امام صاحب کی اتباع کرتے۔

خود التحیات میں بیٹھ کر امام کو زبردستی بٹھانا درست نہیں تھا۔

ایسا کرنا فرض کی خلاف ورزی ہے۔

تاہم

امام صاحب نے آخر میں سجدۂ سہو کر لیا ہے،

جس کے ذریعے نماز ادا ہو چکی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد شریف فاروقی عفا اللہ عنہ

 

سوال اگر کسی شخص کے منہ سے "طلاق طلاق طلاق" کے الفاظ نکل جائیں، تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ اس کا انحصار کن حالات پر ہوتا ہے؟

 

سوال

اگر کسی شخص کے منہ سے "طلاق طلاق طلاق" کے الفاظ نکل جائیں، تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ اس کا انحصار کن حالات پر ہوتا ہے؟

جواب

اگر طلاق کی بات چل رہی ہو، مثلاً

بیوی طلاق کا مطالبہ کر رہی ہو،

یا خاوند غصے میں ہو،

یا طلاق دینے کے موڈ میں ہو،

تو ایسی صورت میں اگر خاوند کے منہ سے "طلاق طلاق طلاق" کے الفاظ نکل جائیں، تو طلاق واقع ہو جائے گی۔

لیکن اگر

ایسا ماحول نہیں تھا،

خاوند یا بیوی کے ذہن میں طلاق کا خیال بھی نہ ہو،

سوچ کسی اور طرف ہو،

مگر زبان سے "طلاق طلاق" کے الفاظ نکل جائیں،

اور بیوی کی طرف نسبت بھی کر دی جائے،

تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہو گی۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد شریف چترالی عفا اللہ عنہ

سوال اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا سلام لے کر آئے تو جواب دینے کا مسنون طریقہ کیا ہے



 

سوال

اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا سلام لے کر آئے تو جواب دینے کا مسنون طریقہ کیا ہے

جواب

اگر کوئی شخص کسی کا سلام لے کر آئے تو جواب دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سلام لانے والے کو بھی جواب میں شامل کیا جائے۔ اس طرح جواب دیا جائے

عَلَیْکَ وَعَلَیْہِ السَّلَامُ


اگر "وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ" کا اضافہ کر دیا جائے تو بہتر ہے۔

سوال

اگر سلام لانے والی یا سلام بھیجنے والی خاتون ہو تو جواب کا صیغہ کیا ہوگا؟

جواب

اگر سلام لانے والی کوئی محرم خاتون ہو تو جواب میں "عَلَیْکِ" کہا جائے۔

اور اگر سلام بھیجنے والی کوئی محرم خاتون ہو تو "عَلَیْہِ" کی جگہ "عَلَیْہَا" کہا جائے۔

سوال

کیا جواب میں "واو" (وَ) کا اضافہ کرنا درست ہے؟

جواب

جی ہاں، اگر جواب کے شروع میں "وَ" کا اضافہ کر دیا جائے، جیسا کہ عام سلام کے جواب میں ہوتا ہے، تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں۔

سوال

اس مسئلے کی فقہی و حدیثی بنیاد کیا ہے؟

جواب

یہ مسئلہ حدیث و فقہ دونوں سے ثابت ہے

حدیث شریف

عن غالب قال: إنا لجلوس بباب الحسن البصري إذ جاء رجل، فقال: حدثني أبي عن جدي، قال: بعثني أبي إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقال: ائتہ فأقرئہ السلام، قال: فأتیتہ، فقلت: أبي یقرئک السلام، فقال:”علیک وعلی أبیک السلام

ـــــــــ رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب السلام، الفصل الثاني، ص: ۳۹۹)

 

فقہی حوالہ

الفتاویٰ الہندیہ میں ہے

"من بلغ إنساناً سلاماً عن غائب کان علیہ أن یرد الجواب علی المبلغ أولاً ثم علی الغائب"

ـــــــــ (الفتاوی الھندیة، ۵: ۳۲۶)

 

الغیاثیہ اور الذخیرة میں بھی یہی مضمون موجود ہے۔

 

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے

رد المحتار (۹: ۵۹۵)

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب


 

ہفتہ، 24 مئی، 2025

سوال: اگر میاں بیوی کے درمیان جھگڑے اور اختلافات ہوں تو بچوں پر کیا منفی اثرات پڑتے ہیں؟

 

سوال:اگر میاں بیوی کے درمیان جھگڑے اور اختلافات ہوں تو بچوں پر کیا منفی اثرات پڑتے ہیں؟

جواب

درج ذیل منفی اثرات بچوں کی شخصیت پر مرتب ہوتے ہیں

 

احساسِ عدم تحفظ

جب بچے والدین کو جھگڑتے یا ایک دوسرے پر تنقید کرتے دیکھتے ہیں،

تو ان کے دل میں یہ خوف بیٹھ جاتا ہے کہ والدین شاید ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں۔

 

یہ احساس ان کی ذہنی و جذباتی نشوونما کو متاثر کرتا ہے،

اور وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

 

والدین کی عزت میں کمی

اگر والدین ایک دوسرے کی برائیاں بچوں کے سامنے کریں،

تو بچے الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 

وہ نہ ماں کو صحیح سمجھ پاتے ہیں، نہ باپ کو۔

 

نتیجتاً، ان کے دل میں والدین کی عزت اور اعتماد کم ہو جاتا ہے۔

 

تربیت میں خلل

بچے جو دیکھتے ہیں، وہی سیکھتے ہیں۔

 

اگر گھر کا ماحول طعنہ زنی، غصے اور بدتمیزی سے بھرپور ہو

تو بچے بھی انہی رویّوں کو اپناتے ہیں،

اور ان کی شخصیت بگڑنے لگتی ہے۔

 

ذہنی دباؤ اور تعلیمی کارکردگی میں کمی

گھریلو جھگڑے بچوں کے دماغی سکون کو تباہ کر دیتے ہیں۔

 

وہ نہ پڑھائی پر توجہ دے پاتے ہیں، نہ خوداعتمادی قائم رکھ پاتے ہیں۔

 

ایسے بچے گم سم، ضدی یا گھمبیر مزاج کے ہو جاتے ہیں۔

میاں بیوی کے اختلافات: اولاد پر برے اثرات

 

میاں بیوی کے اختلافات: اولاد پر برے اثرات

سوال: خاندان میں میاں بیوی کے تعلقات کا اولاد پر کیا اثر ہوتا ہے؟

جواب

خاندان ایک محبت، اعتماد، قربانی اور ہم آہنگی پر قائم ادارہ ہے۔ میاں بیوی اس ادارے کے بنیادی ستون ہیں، اور ان کے درمیان تعلق کا معیار پورے خاندان، خصوصاً اولاد کی تربیت پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر ان کا تعلق خوشگوار ہو تو بچے بھی پُرسکون ماحول میں پروان چڑھتے ہیں، اور اگر تعلقات کشیدہ ہوں تو اس کے کئی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

کیا فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے؟

 

کیا فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتیہے؟

جواب

جی ہاں! فلسطین کے وہ مسلمان جو شرعی اعتبار سے مستحقِ زکوٰۃ ہوں — یعنی ایسے غریب اور ضرورت مند افراد جن کے پاس

ان کی ضروریاتِ اصلیہ (جیسے رہائش، لباس، سواری، بنیادی اخراجات) سے زائد کوئی مال یا سامان نہ ہو

ان کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم یا سامان موجود نہ ہو

اور نہ ہی وہ سید یا ہاشمی ہوں

تو ان مسلمانوں کو زکوٰۃ کی رقم سے امداد دینا جائز ہے۔

 

محترم صورت ِ مسئولہ میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ بعض یہودیوں نے طعنہ دیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے مؤذن ایسا رکھا ہے، جسے شین اور سین کی تمیز نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے سے منع کردیا تو اس روز صبح نہیں ہورہی تھی، پھر صحابی نے بارگاہ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوکر رات کے حوالے سے عرض کیا، پھر جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور فرمایا: جب تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان نہیں دیں گے، صبح نہیں ہو گی تو پھر حضرت بلال نے اذان دی تو صبح ہوئی۔

 

 

محترم صورت ِ مسئولہ میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ بعض یہودیوں نے طعنہ دیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے مؤذن ایسا رکھا ہے، جسے شین اور سین کی تمیز نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے سے منع کردیا تو اس روز صبح نہیں ہورہی تھی، پھر صحابی نے بارگاہ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوکر رات کے حوالے سے عرض کیا، پھر جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور فرمایا: جب تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان نہیں دیں گے، صبح نہیں ہو گی تو پھر حضرت بلال نے اذان دی تو صبح ہوئی۔

 

اور یہ بھی بیان کیاجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کا سین بھی اللہ تعالی کے نزدیک شین ہے۔

 

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ واقعہ مستند کتب احادیث وسیر میں موجودنہیں ہے ،اور اس ضمن میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ محدثین کے نزدیک من گھڑت اور بے اصل ہے ؛لہذا اس کو بیان کرنا درست نہیں ،حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دیگر فضائل کو بیان کرنا چاہیے۔

 

البدایۃ والنہایۃ میں ہے

 

"ومنهم رضي الله عنهم بلال بن رباح الحبشي. ولد بمكة وكان مولى لأمية بن خلف، فاشتراه أبو بكر منه بمال جزيل لأن كان أمية يعذبه عذابا شديدا ليرتد عن الإسلام فيأبى إلا الإسلام رضي الله عنه، فلما اشتراه أبو بكر أعتقه ابتغاء وجه الله، وهاجر حين هاجر الناس، وشهد بدرا وأحدا وما بعدهما من المشاهد رضي الله عنه. وكان يعرف ببلال بن حمامة وهي أمه، وكان من أفصح الناس لا كما يعتقده بعض الناس أن سينه كانت شينا، حتى إن بعض الناس يروي حديثا في ذلك لا أصل له عن رسول الله أنه قال: إن سين بلال شينا. وهو أحد المؤذنين الأربعة كما سيأتي، وهو أول من أذن كما قدمنا".

(ج:5،ص:333،دارالفکر)

 

المقاصد الحسنۃ للسخاوی میں ہے

 

"حديث: سين بلال عند الله شين، قال ابن كثير: إنه ليس له أصل، ولا يصح، وكذا سلف عن المزي في: إن بلالا، من الهمزة، ولكن قد أورده الموفق ابن قدامة في المغني بقوله: روي أن بلالا كان يقول أسهد، يجعل الشين سينا، والمعتمد الأول، وقد ترجمه غير واحد بأنه كان ندي الصوت حسنه فصيحه، وقال النبي صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن زيد صاحب الرؤيا: ألق عليه، أي على بلال، الأذان، فإنه أندى صوتا منك، ولو كانت فيه لثغة لتوفرت الدواعي على نقلها، ولعابها أهل النفاق والضلال، المجتهدين في التنقص لأهل الإسلام، نسأل الله التوفيق".

(ص:397،دارالکتاب العربی)

 

التذکرۃ فی الاحادیث المشتہرۃ میں ہے

 

"قال الحافظ جمال الدين المزي: اشتهر على ألسنة العوام ان بلالا رضي الله عنه كان يبدل الشين في الآذان سينا ولم نره في شيء من الكتب كذا وجدته عنه بخط الشيخ برهان الدين السفاقسي".

(ص:208،دارالکتب العلمیۃ)

 

فقط واللہ اعلم